ہر چند دکھ دہی سے زمانے کو عشق ہے
Appearance
ہر چند دکھ دہی سے زمانے کو عشق ہے
لیکن مرے بھی تاب کے لانے کو عشق ہے
آشفتہ سر ہیں یاں دل صد چاک بھی کئی
تنہا نہ تیری زلف سے شانے کو عشق ہے
افلاک بیٹھے جائیں تھے جس بوجھ کے تلے
آدم کے ویسے بار اٹھانے کو عشق ہے
وحشت کو اپنی شہر و بیاباں میں جا نہیں
عاقل کو اب دعا و دوانے کو عشق ہے
یارب بن آئی آدمی مر جائے پر نہ ہو
وہ رنج بد بلا جو کہانے کو عشق ہے
دل کو چھٹا وہیں سے پھنسایا تو زلف میں
اے عشق تیرے بات بڑھانے کو عشق ہے
قائمؔ ہوس سے گو کہ کہی سب نے یہ غزل
لیکن ترے ردیف بٹھانے کو عشق ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |