ہر گل اس باغ کا نظروں میں دہاں ہے گویا
Appearance
ہر گل اس باغ کا نظروں میں دہاں ہے گویا
صورت غنچہ جو دیکھوں تو زباں ہے گویا
تاک کی طرح سبھی مست پڑے اینڈیں ہیں
مے کدہ اب گرو بادہ کشاں ہے گویا
چشم ہے ترک نگہ نیزہ و مژگاں ترکش
زلف پر پیچ کا ہر حلقہ کماں ہے گویا
جا بھڑاتا ہے ہمیشہ مجھے خوں خواروں سے
دل بغل بیچ مرا دشمن جاں ہے گویا
حاتمؔ اب اس کی سبھی منہ کی طرف دیکھے ہیں
شیشہ مجلس میں یہاں پیر مغاں ہے گویا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |