ہستی اپنی حباب کی سی ہے
Appearance
ہستی اپنی حباب کی سی ہے
یہ نمائش سراب کی سی ہے
نازکی اُس کے لب کی کیا کہئیے
پنکھڑی اِک گلاب کی سی ہے
بار بار اُس کے در پہ جاتا ہوں
حالت اب اضطراب کی سی ہے
میں جو بولا، کہا کہ یہ آواز
اُسی خانہ خراب کی سی ہے
میر اُن نیم باز آنکھوں میں
ساری مستی شراب کی سی ہے