ہلتی ہے زلف جنبش گردن کے ساتھ ساتھ
ہلتی ہے زلف جنبش گردن کے ساتھ ساتھ
ناگن بھی ہے لگی ہوئی رہزن کے ساتھ ساتھ
کس کی کدورتوں سے یہ مٹی خراب ہے
کس کا غبار ہے ترے دامن کے ساتھ ساتھ
اٹھا تھا منہ چھپائے ہوئے میں ہی صبح کو
جاتا تھا میں ہی رات کو دشمن کے ساتھ ساتھ
کوچے میں اس صنم کے خدائی کا لطف ہے
ناحق پھرا میں شیخ و برہمن کے ساتھ ساتھ
دل کی تپش نے خاک اڑائی یہ بعد مرگ
لاشہ پھرا کیا مرا مدفن کے ساتھ ساتھ
اللہ اپنے رشک کا درجہ بھی اب نہیں
کس کس جگہ گیا بت پر فن کے ساتھ ساتھ
جھونکا قفس میں آیا جو باد بہار کا
پہلو سے دل نکل چلا سن سن کے ساتھ ساتھ
اشکوں کے ساتھ ساتھ تو موجیں غموں کی ہیں
آنکھوں کے شعلے ہیں مرے شیون کے ساتھ ساتھ
جس راہ سے گزرتے ہیں وہ، مجھ سے سیکڑوں
ہو لیتے ہیں جنوں زدہ بن بن کے ساتھ ساتھ
زنجیر میرے پاؤں کے پیچھے پڑی ہے یوں
پھرتا ہے رشتہ جس طرح سوزن کے ساتھ ساتھ
کب تک کسی کو کھولیں کسی کو کریں وہ بند
پھرتی ہے یاں نگاہ تو روزن کے ساتھ ساتھ
یوں ساتھ روح کے ہے تن زار اب نظامؔ
پھرتا ہے جیسے سایہ مرا تن کے ساتھ ساتھ
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |