ہمدردی (سید احمد خان)
ہر کوئی اپنی آپ ہمدردی کرتا ہے۔
کیا دھوکے کی چیز ہے! کیا بھلاوے میں پڑے ہیں جو سمجھتے ہیں کہ دوسروں کی مصیبت میں مدد کرنا ہمدردی کرنا ہے۔ کیا قدرت کا کوئی کام بے فائدہ ہے؟ نہیں، گو ہم بہتوں کے سمجھنے سے عاجز ہیں۔ کیا ہم اس فائدہ میں شریک نہیں؟ نہیں۔ بیشک واسطہ یا بلا واسطہ یا واسطہ در واسطہ شریک ہیں۔ پھر دوسرے کی مدد کرنا کہاں رہا؟ بلکہ اپنی آسائش کے کسی وسیلے سے اپنی مدد آپ کرنا ہوا، اس لئے جو لوگ ہمدردی کرتے ہیں، وہ حقیقت میں اپنی مدد آپ کرتے ہیں اور جو نہیں کرتے وہ خود اپنی آسائش کے وسیلے کو نقصان پہنچاتے ہیں۔ ہمدردی کا لفظ ہمارے خیال کو ایسے امداد کی طرف لے جاتا ہے جو رنج اور مصیبت کی حالت میں ہو لیکن اگر ہم مصیبت کے لفظ کی اصلی مراد پر غور نہ کریں تو ضرور غلطی میں پڑیں۔عام مفہوم مصیبت کا جو اس لفظ سے ہماری سمجھ میں آتا ہے کوئی مستقل مفہوم نہیں ہے، بلکہ نسبتی مفہوم معلوم ہوتاہے۔ جو چیز کہ ایک کے لئے مصیبت ہو ممکن ہے کہ دوسرے کے لئے نہ ہو۔ وہ عادت اور استعمال سے ایسی مختلف ہو جاتی ہے کہ مصیبت معلوم نہیں ہوتی۔ وہ کسی جوش کے سبب سے ایسی بدل جاتی ہے کہ بالکل راحت سمجھ میں آتی ہے۔ بیشک یہ تمام مفہوم نسبتی ہیں اور جو اصلی مفہوم ہے وہ ایسی حالت کا ہونا یا واقع ہونا ہے جو قدرتی فرحت اور راحت کے بر خلاف ہو۔اس حالت کا ہونا غیر اختیاری حالتوں کا ہونا ہے اور واقع ہونا اختیاری حالتوں کا، مگر پچھلی حالت اگر نتیجے کی لا علمی یا نقصان غیر متعدی کے سبب سے ہے تو مجازاً وہ پہلی سی ہے ورنہ حقیقت میں وہ مصیبت نہیں ہے، بلکہ سزا ہے اور اس لئے اس میں ہمدردی نہیں، پس اصلی یا اصلی سی مصیبت میں کسی کی مدد کرنا البتہ سچی ہمدردی ہے۔ رحم اور موانست اور ہمدردی شاید نتیجے میں متحد ہوں، مگر ہر ایک کا منشا مختلف ہے۔ رحم ایک فطرتی نیکی ہے جو ہم جنس اور غیر ہم جنس دونوں کے ساتھ برتی جاتی ہے۔ موانست کا اثر صرف ہم جنسوں میں پایا جاتا ہے۔ ہمدردی جو عقل کے نتیجوں میں سے ہے ذی عقل ہی میں ہو سکتی ہے اور اس لیے صرف انسان ہی میں منحصر ہے۔ پس جس میں ہمدردی نہیں اس میں انسانیت کا نقصان ہے۔قدرتی قاعدے کے مطابق ہمدردی کے بقدر تفاوت اپنی آسائش کے وسیلوں کے متفاوت درجے ہیں، جس طرح کہ باپ، بھائی، جورو، بچے پھر اور درجہ بدرجہ کے رشتہ مند، پھر اپنے ملک کے، پھر اپنے ہمسایہ ملک کے، پھر اس دور کے ملک کے باشندے درجہ بدرجہ ہماری آسائش کے وسیلے ہیں۔ اسی طرح قادر مطلق کی کامل قدرت نے ہمدردی کے رشتے کی مضبوطی اور استواری کو بھی درجہ بدرجہ بنایا ہے۔ باپ کو بیٹے سے جو جوش ہمدردی ہے وہ پوتے سے نہیں ہے اور جو پوتے سے وہ پڑپوتے سے نہیں۔ اسی طرح یہ رشتہ جتنا کہ بڑھتا جاتا ہے اتنا ہی گھٹتا جاتا ہے اور جب وہ اپنے ملک یا اپنے ہمسایہ ملک یا اس سے دور کے ملک تک پہونچتا ہے تو اور بھی پتلا ہو جاتا ہے۔بعضے کہتے ہیں کہ ’’یہ ایک دھوکہ ہے اور اگر یہ دھوکہ نہیں ہے اور یہ متفاوت درجے قدرتی ہیں تو انجان بیٹے اور ان پہچان باپ میں کیوں وہ ہمدردی نہیں۔ حقیقت میں یہ صرف ایک خیال ہے جس سے موانست پیدا ہوتی ہے اور وہی باعث ہمدردی ہے۔ نفرت جو اس کی ضد ہے اس کا بخوبی ثبوت کرتی ہے کہ جب وہ پیداہوتی ہے تو باوجود موجود ہونے قدرتی رشتے کے کچھ بھی ہمدردی نہیں رہتی۔‘‘بیشک ایسا یا ایسا سا ہوتا ہے، مگر اس میں کچھ غلطی بھی ہے۔ قریب رشتہ والا بہ نسبت دور کے رشتے والے کے بلا شبہ ہم سے زیادہ تر جزئیت رکھتا ہے اور اسی طرح بعید بہ نسبت ابعد کے، پھر اگر وہ جزئیت قدرتی ہے وہ ہمدردی بھی قدرتی ہے۔ ہاں موانست اس کو نہایت تیز کر دیتی ہے اور کبھی کبھی ایسی جو قدرتی معلوم ہوتی ہے، نفرت اس کی تیزی کو دباتی ہے اور کبھی ایسا کر دیتی ہے جو بجھی ہوئی سی معلوم ہوتی ہے۔ انجان بیٹے اور ان پہچان باپ میں جو وہ چمکتی نہیں، نہ اس لئے کہ وہ نہیں ہے، مگر تعجب یہ ہے کہ جو ہمدردی اعلٰی ہے وہ مذمت میں اعلیٰ اور صفت میں ادنی ٰ ہے وہ مذمت میں ادنی ٰ اور صفت میں اعلی ہے، اس لیے کہ ایک میں کھونا قدرتی صفت کا اور دوسری میں متصف ہونا قدرتی صفت میں ہے۔قریبوں سے ہمدردی نہ کرنی نہایت بد خصلت قابل سزا کے ہے۔ اس لیے کہ قدرت کے نہایت مستحکم قاعدے کو توڑنا ہے اور کرنی کچھ بڑی صفت نہیں، کیونکہ قدرت نے اس کے کرنے پر مجبور کر رکھا ہے، بعیدوں سے ویسی نہ کرنی کچھ سخت مذمت نہیں، اس لیے کہ قدرت کے کسی مستحکم قاعدے کی بر خلافی نہیں اور کرنی نہایت عمدہ صفت ہے، کیونکہ قدرت کے منشا کو بدرجہ اتم کامل کرنا ہے۔ افسوس ہے کہ یہ عمدہ صفت کبھی دھوکہ کھاکر معیوب بھی کر دی جاتی ہے جب کہ پہلی کو ادنیٰ صفت سمجھ کر چھوڑتے ہیں اور دوسری کو اعلیٰ صفت سمجھ کر پکڑ تے ہیں، مگر پہلی کے چھوڑنے کی برائی دوسری کی بھلائی کو بھی لے ڈوبتی ہے۔ پس سچی ہمدردی وہی ہے جو قدرت کے قانون کے مطابق اور قدرت کے منشا کی تکمیل کے لیے ہو۔کیا عمدہ اور سہل طور پر عام عمل در آمد کے لائق کر دیا ہے اس مضمون کو بڑی قدرت والے اور معاشرت و تمدن کے زبردست قانون جاننے والے نے، جب کہ ہم سے یوں کہا، 1 ’’لیس البر ان تولوا وجوھکم قبل المشرق والمغرب ولکن البر من آمن باللہ والیوم الآخر والملائکۃ والکتاب والنبیین واٰ تی المال علی حبہ ذوی القربی والیتامی والمساکین وابن السبیل والسائلین و فی الرقاب۔‘‘ جو عمدہ ترتیب ہمدردی کی اس میں بتائی ہے وہ بالکل قانون قدرت کے مطابق ہے جس سے یقین ہوتا ہے کہ جس نے قدرت کے قانون کو بنایا ہے اسی نے یہ عملی قانون ہم کو دیا ہے۔ بے شک دونوں کا بانی ایک ہی ہے جس کے فعل اور قول دونوں کا ایک ہی مقصد ہے۔
حاشیہ
(۱) نیکی یہی نہیں کہ منہ کرو اپنے مشرق کی طرف یا مغرب کی طرف، لیکن نیکی وہ ہے جو کوئی ایمان لاوے اللہ پر اور پچھلے دن پر اور فرشتوں پر اور کتاب پر اور نبیوں پر اور دیوے مال اس کی محبت پر قرابت والوں کو اور یتیموں کو اور محتاجوں کو اور رہ کے مسافر کو اور مانگنے والے کو اور گردنیں چھڑانے میں۔
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |