ہمدمو کیا مجھ کو تم ان سے ملا سکتے نہیں
Appearance
ہمدمو کیا مجھ کو تم ان سے ملا سکتے نہیں
میں تو جا سکتا ہوں واں گر یاں وہ آ سکتے نہیں
شرم ہے ان کو بہت ہر دم چمٹنے سے مرے
وہ تڑپتے ہیں ولیکن غل مچا سکتے نہیں
ہاتھ میں ہے ہاتھ اور کوئی نہیں ہے آس پاس
وہ تو ہیں قابو میں پر ہم جی چلا سکتے نہیں
چودھویں ہے رات اور چھٹکی ہوئی ہے چاندنی
ہم کمند اب ان کے کوٹھے پر لگا سکتے نہیں
کیوں میاں رنگیںؔ بھلا اب اس زمیں میں سوچ سے
کیا غزل تم حسب حال اپنی سنا سکتے نہیں
بس میں ہیں وہ غیر کے ہم کو بلا سکتے نہیں
اور ہم اس جا کسی صورت سے جا سکتے نہیں
ہم کو ان سے ان کو ہم سے جتنی الفت ہے اسے
وہ گھٹا سکتے ہیں لیکن ہم گھٹا سکتے نہیں
غیر سے ہم کو دلاتے ہیں وہ لاکھوں گالیاں
پچھلی باتیں یاد ہم ان کو دلا سکتے نہیں
بت بنے ہیں یوں تو ہم باتیں بناتے ہیں ہزار
بات لیکن وصل کی اصلاً بتا سکتے نہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |