ہمیں دیکھے سے وہ جیتا ہے اور ہم اس پہ مرتے تھے
Appearance
ہمیں دیکھے سے وہ جیتا ہے اور ہم اس پہ مرتے تھے
یہی راتیں تھیں اور باتیں تھیں وہ دن کیا گزرتے تھے
وہ سوز دل سے بھر لاتا تھا اشک سرخ آنکھوں میں
اگر ہم جی کی بے چینی سے آہ سرد بھرتے تھے
کسی دھڑکے سے روتے تھے جو باہم وصل کی شب کو
وہ ہم کو منع کرتا تھا ہم اس کو منع کرتے تھے
ملی رہتی تھیں آنکھیں غلبۂ الفت سے آپس میں
نہ خوف اس کو کسی کا تھا نہ ہم لوگوں سے ڈرتے تھے
سو اب صد حیف اس خورشید رو کے ہجر میں جرأتؔ
یہی راتیں ہیں اور باتیں ہیں وہ دن کیا گزرتے تھے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |