ہمیں کون پوچھے ہے صاحبو نہ سوال میں نہ جواب میں
Appearance
ہمیں کون پوچھے ہے صاحبو نہ سوال میں نہ جواب میں
نہ تو کوئی آدمی جانے ہے نہ حساب میں نہ کتاب میں
نہ تو علم اپنے میں ہے یہاں کہ خدا نے بھیجا ہے کس لیے
اسی کو جو کہتے ہیں زندگی سو تو جسم کے ہے عذاب میں
یہی شکل ہے جسے دیکھو ہو یہی وضع ہے جسے گھورو ہو
جسے جان کہتے ہیں آدمی اسے دیکھا عالم خواب میں
میں خلاف تم سے نہیں کہا اسے مانو یا کہ نہ مانو تم
میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا میں کہ ملا ہوں اس کی جناب میں
نہ سنوگے سوزؔ کی گفتگو جو پھروگے ڈھونڈنے کوبکو
یہ نشہ ہے اس کے بیان میں کہ نہیں نشہ ہے شراب میں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |