ہم اپنا جو قصہ سنانے لگے
Appearance
ہم اپنا جو قصہ سنانے لگے
وہ بولے کہ پھر سر پھرانے لگے
کہا تھا اٹھا پردۂ شرم کو
وہ الٹا ہمیں کو اٹھانے لگے
ذرا دیکھیے ان کی صناعیاں
مجھے دیکھ کر منہ بنانے لگے
کہا میں نے مل یا مجھے مار ڈال
وہ جھٹ آستینیں چڑھانے لگے
مجھے آتے دیکھا جوں ہی دور سے
قدم وار جلدی اٹھانے لگے
اٹھے وہ تو اک حشر برپا کیا
جو بیٹھے تو فتنہ اٹھانے لگے
غذا غم میں تھی میری خون جگر
اب اعدا کا بھی رشک کھانے لگے
کمال تعشق نہیں ہے ہنوز
ابھی سے وہ منہ کو چھپانے لگے
خفا ہو کے جب بے بلائے گیا
مجھے دیکھ کر مسکرانے لگے
غنیمت ہے اتنا تو اٹھا حجاب
کہ اب خواب میں بھی وہ آنے لگے
وہ دل کے اڑانے سے واقف نہ تھے
ہمیں تو یہ گھاتیں بتانے لگے
مگر ان پہ راز محبت کھلا
جو مجروحؔ سے بچ کے جانے لگے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |