ہم تو اس کوچے میں گھبرا کے چلے آتے ہیں
ہم تو اس کوچے میں گھبرا کے چلے آتے ہیں
دو قدم جاتے ہیں پھر جا کے چلے آتے ہیں
ہم کو اے شرم ٹک اب اس کی طرف جانے دے
حال اپنا اسے دکھلا کے چلے آتے ہیں
دن کو زنہار ٹھہرتے نہیں ہم اس کو میں
رات کو ملنے کی ٹھہرا کے چلے آتے ہیں
وہ ادا کشتہ ٹھہرتا نہیں پھر مقتل میں
لاش کو جس کی وہ ٹھکرا کے چلے آتے ہیں
میں بھروسے ہی میں رہتا ہوں تری زلفوں میں
یار میرے مجھے پھنسوا کے چلے آتے ہیں
وہ جو ملتا نہیں ہم اس کی گلی میں دل کو
در و دیوار سے بہلا کے چلے آتے ہیں
جاتے ہیں کوچے میں ہم اس کے تو واں غیر کو دیکھ
پھر نہ آنے کی قسم کھا کے چلے آتے ہیں
قیدی مر جاتے ہیں جب آپ کبھی زنداں کے
قفل دروازے کو لگوا کے چلے آتے ہیں
چھٹتے ہیں جو اسیران قفس گلشن میں
کیا ہی پر شوق سے پھیلا کے چلے آتے ہیں
غیر جب وصل کا کرتا ہے سوال ان سے تو وے
کیسے محجوب ہو دم کھا کے چلے آتے ہیں
رہ روان سفر بادیۂ عشق اے وائے
قافلے راہ میں لٹوا کے چلے آتے ہیں
میں تو سمجھا تھا بجھاویں گے کچھ آنسو تف دل
یہ تو اور آگ کو بھڑکا کے چلے آتے ہیں
ساتھ میت کے مری وہ نہیں چلتے دو قدم
بس وہیں نعش کو اٹھوا کے چلے آتے ہیں
دل کی بیتابی سے جاتے تو ہیں ہم اس کو میں
لیک اس جانے سے پچھتا کے چلے آتے ہیں
بدرقہ گر نہیں احباب تو پھر کیوں پس مرگ
تا بہ منزل مجھے پہنچا کے چلے آتے ہیں
مصحفیؔ کے تئیں دیکھیں ہیں جو وہ کشتہ پڑا
پاس جاتے نہیں شرما کے چلے آتے ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |