ہم تو کہتے تھے دم آخر ذرا سستا نہ جا
ہم تو کہتے تھے دم آخر ذرا سستا نہ جا
لے، چلے ہم جان سے، مختار ہے اب جا نہ جا
لے دل بے تاب آتا ہے وہ کر لے عرض حال
دیکھتے ہی اس کی صورت اس قدر گھبرا نہ جا
تنگ ہو کر کس ادا سے وصل کی شب کو وہ شوخ
مجھ سے کہتا تھا کہ ہے ہے اس قدر لپٹا نہ جا
پاس آنا گر نہیں منظور تو آ آ کے شکل
از رہ شوخی مجھے تو دور سے دکھلا نہ جا
جاؤں جاؤں کیا کہے ہے بس لڑائی ہو چکی
پیار سے میرے گلے اب جان جاں لگ جا نہ جا
کیا سماں رکھتا ہے وہ محفل سے اٹھنا یار کا
اور اشاروں سے مرا کہنا کہ آ جانا، نہ جا
کہتے ہیں آتا ہے وہ اے جان بر لب آمدہ
تو خدا کے واسطے ٹک اور بھی رہ جا نہ جا
روٹھ کر جب مجھ سے وہ جاتا ہے تو کر ضبط آہ
پہلے تو کہتا ہوں میں تو جان اب جا یا نہ جا
لیک اٹھ کر جب وہ جاتا ہے تو بے تابی سے میں
ووں ہی کہتا ہوں ترے قربان جاؤں آ، نہ جا
لوٹتا ہے جرأتؔ بیتاب جانے سے ترے
یوں اسے تڑپا کے تو اے شوخ بے پروا، نہ جا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |