ہم دل کو لیے بر سر بازار کھڑے ہیں
Appearance
ہم دل کو لیے بر سر بازار کھڑے ہیں
حیران تمنائے خریدار کھڑے ہیں
غیروں سے وہ خلوت میں ہے مشغول ظرافت
ہم رشک کے مارے پس دیوار کھڑے ہیں
ان شرم زدوں کو بھی بلا سامنے اپنے
جو شرم کے مارے پس دیوار کھڑے ہیں
از بہر خدا بام پر آ اے بت کافر
کوچے میں ترے طالب دیدار کھڑے ہیں
ڈھب پاؤں تو میں اس سے کہوں حال دل اپنا
اس بت کو تو گھیرے ہوئے اغیار کھڑے ہیں
ہے اس کی سواری کی خبر سیر چمن کو
اور اہل تماشا سر بازار کھڑے ہیں
جوں نقش قدم بیٹھنے کی جا نہیں ملتی
اس کوچے میں ہم اس لیے ناچار کھڑے ہیں
کوچہ ہے ترا وعدہ گہ خلق کہ جس میں
دو چار جو بیٹھے ہیں تو دو چار کھڑے ہیں
ہو عزم سفر تجھ کو تو اے مصحفیؔ اب بھی
چلنے کے لیے قافلے تیار کھڑے ہیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |