ہم سے جو عہد تھا وہ عہد شکن بھول گیا
ہم سے جو عہد تھا وہ عہد شکن بھول گیا
اپنے عشاق کو وہ غنچہ دہن بھول گیا
قیس کا جلوۂ لیلیٰ جو ہوا ہوش ربا
وہ سراسیمہ ہوا نجد کا بن بھول گیا
کیا کرشمہ یہ تری چشم سخن گو نے کیا
کس کی جانب تھا مرا روئے سخن بھول گیا
خار خار غم الفت نے کیا راہ غلط
تیرا مدہوش نظر راہ چمن بھول گیا
نگہ شوق نے دیوانہ بنایا مجھ کو
کچھ خبر اپنی نہیں ہے ہمہ تن بھول گیا
ہو گیا ہوش ربا حسن فریب عالم
نل جو بازی میں لگا عشق دمن بھول گیا
شوق و رم تیرے جو دیکھے ہیں غزال رعنا
چوکڑی اپنی بیاباں میں ہرن بھول گیا
سیر گلزار میں ہے محو تماشا وہ گل
بلبل شیفتہ کو غنچہ دہن بھول گیا
سبزۂ خط نے ترے راہ میں گھیرا مجھ کو
غرق میں ہو نہ سکا چاہ ذقن بھول گیا
محو ہوتا ہی نہیں اس کا کبھی دل سے خیال
یاد کرتا ہی نہیں مشفق من بھول گیا
شاہد مست نے سرمست کیا ہے ساقیؔ
ہم وہ مدہوش ہوئے رنگ سخن بھول گیا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |