ہم قتل ہو گئے نہیں تجھ کو خبر ہنوز
Appearance
ہم قتل ہو گئے نہیں تجھ کو خبر ہنوز
باندھے پھرے ہے ہم پہ میاں تو کمر ہنوز
سو سو طرح کے وصل نے مرہم رکھے ولے
زخم فراق ہیں مرے ویسے ہی تر ہنوز
کھولی تھی خواب ناز سے کس نے یہ اٹھ کے زلف
لاتی ہے بوئے ناز نسیم سحر ہنوز
وعدوں پہ تیرے کام بھی میرا ہوا تمام
باتیں ہی تو بنایا کیا یار پر ہنوز
جو دودھ کا جلا ہو پئے چھاچھ پھونک پھونک
ہوں وصل میں پہ ہجر سے ہے مجھ کو ڈر ہنوز
بھولے سے تو نے پیار کی اک دن کہی جو بات
روتا ہوں دل ہی دل میں اسے یاد کر ہنوز
اجڑے ہزار شہر حسنؔ اور پھر بسے
آباد پر ہوا نہ یہ دل کا نگر ہنوز
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |