ہم نہ محظوظ ہوئے ہیں کسی شے سے ایسے
Appearance
ہم نہ محظوظ ہوئے ہیں کسی شے سے ایسے
جیسے مسرور ہیں پینے ستے مے سے ایسے
نہ ہمیں کام ہے حشمت ستے جمشید کے کچھ
بوریا بس ہے بہ از مسند کے سے ایسے
چھوڑ دنیا کو بہ دنیا ز حقیقت دنیا
خوب واقف ہوں رگ و ریشہ و پے سے ایسے
دین دنیا کی محبت میں اگر غور کرو
ہے تنفر مجھے جس طرح سے کے سے ایسے
نے میں طاقت نہیں نائے کا کرشمہ ظاہر
بوجھ نائے کی سدا جو سنے نے سے ایسے
خوبرو اگلے زمانے کے ہیں اب تک موجود
آفت جان جو تھے ہیں وہی ویسے ایسے
تو جو آوارہ ہے افریدیؔ بتا کس جا پر
دل لیا کس نے ترا کون سی لے سے ایسے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |