ہم کو شب وصال بھی رنج و محن ہوا
ہم کو شب وصال بھی رنج و محن ہوا
قسمت خلاف طبع ہوا جو سخن ہوا
پھر آنے کی ہوس میں سحر کس خوشی کے ساتھ
ہم راہ نالہ درد جگر بھی معن ہوا
گردش بھی اس کے کوچے میں ہے اور قرار بھی
قسمت تو دیکھیے کہ سفر میں وطن ہوا
قاتل ادائے شکر کو یا شکوؤں کے لیے
جو زخم جسم پر ہوا گویا دہن ہوا
ثابت قدم ہوا نہ رہ عشق میں کوئی
مجنوں کوئی ہوا تو کوئی کوہ کن ہوا
کچھ مجھ سے شب کو غیر کے اظہار کے لیے
یہ عشق بازی کی تھی کہ اپنا یہ فن ہوا
دشمن سے اور ہوتیں بہت باتیں پیار کی
شکر خدا یہ ہے کہ وہ بت کم سخن ہوا
لب پر ہنسی وہ آئی وہ چین جبیں گئی
کہتا تو ہوں خطا ہوئی دیوانہ پن ہوا
آئینہ دیکھ دیکھ کے کیا دیکھتے ہو تم
چھونا بھی یاں نصیب تمہارا بدن ہوا
اب بوسہ دینے میں تمہیں کس بات کا ہے عذر
گالی کے دینے سے ہمیں ثابت دہن ہوا
حق بات تو یہ ہے کہ اسی بت کے واسطے
زاہد کوئی ہوا تو کوئی برہمن ہوا
تقدیر کی یہ بات ہے اب کیا کرے کوئی
راضی ہوئے وہ بوسے پہ تو گم دہن ہوا
پھر میرے اضطراب میں کیوں شک ہے آپ کو
الفت کا جب یقیں تمہیں اے جان من ہوا
لب تک نہ آیا حرف تمنا کبھی نظامؔ
گویا مرا سخن بھی تمہارا دہن ہوا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |