ہم یہ تو نہیں کہتے کہ غم کہہ نہیں سکتے
Appearance
ہم یہ تو نہیں کہتے کہ غم کہہ نہیں سکتے
پر جو سبب غم ہے وہ ہم کہہ نہیں سکتے
ہم دیکھتے ہیں تم میں خدا جانے بتو کیا
اس بھید کو اللہ کی قسم کہہ نہیں سکتے
رسوائے جہاں کرتا ہے رو رو کے ہمیں تو
ہم تجھے کچھ اے دیدۂ نم کہہ نہیں سکتے
کیا پوچھتا ہے ہم سے تو اے شوخ ستم گر
جو تو نے کئے ہم پہ ستم کہہ نہیں سکتے
ہے صبر جنہیں تلخ کلامی کو تمہاری
شربت ہی بتاتے ہیں سم کہہ نہیں سکتے
جب کہتے ہیں کچھ بات رکاوٹ کی ترے ہم
رک جاتا ہے یہ سینہ میں دم کہہ نہیں سکتے
اللہ رے ترا رعب کہ احوال دل اپنا
دے دیتے ہیں ہم کر کے رقم کہہ نہیں سکتے
طوبائے بہشتی ہے تمہارا قد رعنا
ہم کیونکر کہیں سرو ارم کہہ نہیں سکتے
جو ہم پہ شب ہجر میں اس ماہ لقا کے
گزرے ہیں ظفرؔ رنج و الم کہہ نہیں سکتے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |