Jump to content

ہندوستانی کیا ہے؟

From Wikisource
ہندوستانی کیا ہے؟
by مولوی عبد الحق
319560ہندوستانی کیا ہے؟مولوی عبد الحق

‏(یہ تقریر۲۱‏‎/‎فروری ۱۹۳۹ء کوآل انڈیا ریڈیو اسٹیشن دہلی سے نشر کی گئی۔)

‏ہندستانی کا لفظ آج کل بھڑوں کا چھتا بنا ہوا ہے۔ اب آل انڈیا ریڈیو اسٹیشن نے اس چھتے کو چھیڑا ہے تو اسے ڈنگ سہنے کے لیے بھی تیار ‏رہنا چاہیے۔ زبان کے معنوں میں ہندستانی کا لفظ ہمارے کسی مستند شاعر یا ادیب یا اہل زبان نے کبھی استعمال نہیں کیا۔ یہ یورپ والوں کی اپج ‏ہے۔ یورپ کے سیاحوں نے جو سترہویں صدی سے اس ملک میں آنے شروع ہوئے، اس زبان کو جو شمالی ہند میں عام طورسے بولی جاتی ‏تھی، اندستان، اندستانی اور بعدازاں ہندستانی کے نا م سے موسوم کیا۔ لیکن اس لفظ کو ایسٹ انڈیا کمپنی کے زمانے میں اس وقت فروغ ‏ہوا جب ۱۸۰۰ء میں کلکتہ میں فورٹ ولیم کالج قائم ہوا۔ ‏عجب بات یہ ہے کہ کالج کے انگریز استاد تو اس زبان کو جس میں میر امن کی’’ باغ وبہار‘‘، شیر علی افسوس کی ’’آرایش محفل‘‘، حیدری ‏کا ’’طوطی نامہ‘‘، طپش کی ’’بہار دانش‘‘ وغیرہ لکھی گئیں، ہندستانی کہتے ہیں لیکن ان کتابوں کے لکھنے والے اپنی کتابوں کی زبان کو اردوئے ‏معلیٰ، ریختہ یاہندی کہتے ہیں۔ مثلاً میرامن نے اپنی کتاب ’’باغ وبہار یاقصۂ چہار درویش‘‘ کو ایک عرضی کے ساتھ پیش کیا۔ جس میں وہ ‏لکھتے ہیں کہ’’ اردو ئے معلیٔ کی زبان میں باغ و بہار بنایا‘‘ اسی عرضی کے آخر میں یہ شعر ہے۔ ‏سو اردو کی آراستہ کرزباں ‏کیا میں نے بنگالا ہندوستاں ‏اس کتاب کے دیباچے میں زبان کی تاریخ بیان کرتے وقت یہ لکھتے ہیں، ’’حقیقت اردو زبان کی بزرگوں کے منہ سے یوں سنی۔‘‘ میر شیر ‏علی افسوس ’’آرائش محفل‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ’’اس کے تمام مطالب کو اردو زبان میں لکھنا شروع کیا۔ مرزا طپش ’’شمس البیان‘‘ میں اپنی ‏زبان کو روز مرہ فصحائے اردو معلیٰ کہتے ہیں اور اپنی بہار دانش ہندی میں اس زبان کو ایک ہی شعر کے مصرع میں تو ہندی زبان اور دوسرے ‏میں اردو لکھا ہے۔ ‏شرف اس نے ہندی زباں کو دیادیا نظم اردو کو یہ مرتبااور چند اشعار کے بعد اسے ریختہ کہتے ہیں۔ ‏وقایق میں ہے ریختے کے تمامحیدر بخش حیدری’’قصۂ حاتم طائی‘‘ کی زبان کو ریختہ کہتا ہے۔ میرامن ’’گنج خوبی‘‘ میں گلکرائسٹ کو’’اردو کا قدردان‘‘ لکھتا ہے۔ مہر چند ‏کھتری لاہوری اپنی کتاب ’’نوآئین ہندی‘‘ میں لکھتا ہے کہ اس نے قصۂ آذر شاہ اور ’’ سمن رخ‘‘ کو فارسی سے ہندی میں ترجمہ کیا۔ ڈاکٹر ‏جان گلکرائسٹ اپنی تصانیف میں ہندستانی اور اردو دونوں لفظ اس ایک زبان کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ گارساں دتاسی کا بھی یہی حال ہے ‏لیکن وہ زیادہ تر ہندستانی کا لفظ استعمال کرتا ہے۔ بابو شیو پرشاد نے بھی ’’جام جہاں نما‘‘ کی زبان کو اردو بتایا ہے۔ کلکتہ بیپٹسٹ مشن نے ‏جو انجیل مقدس کا ترجمہ چھاپا تھا، اس کے سرورق پر لکھا ہے، ’’یونانی زبان سے اردو زبان میں ترجمہ کیا گیا۔‘‘ لیکن اس کے نیچے انگریزی ‏زبان میں‏In the Hindustani Language ‎ لکھا ہے۔ ‏بابو کاشی ناتھ بسواس کرانی اپنی کتاب قصہ سوہن مسمیّٰ بہ گلدستۂ انجمن کے سرورق پر لکھتے ہیں، ’’ انگریزی زبان سے اردو میں ترجمہ کیا۔‘‘ ‏ڈاکٹر ای۔ جے لارنس ’’رابن سن کروسو‘‘ کے ترجمے اور مسٹر جیمس کورکورن اپنی ’’تاریخ چین‘‘ اور ڈاکٹر فریڈرک جان اپنی’’ اصول ‏تشریح‘‘ کی زبان کو اردو ہی کہتے ہیں۔ اسی طرح دہلی کالج، علی گڑھ سائنٹفک سوسائٹی مرزاپور سیریز کی جتنی کتابیں چھپیں ان سب پر اردو ‏ہی کا لفظ لکھا ہے۔ ‏غرض وہ تمام کتابیں جن کے نام میں نے لیے ہیں، اسی زبان میں ہیں جسے آج کل اردو کہتے ہیں۔ انگریز اسے ہندستانی کہتے تھے۔ ہندستانی ‏سے ان کی مراد وہ صاف اور فصیح زبان تھی جو بول چال میں آتی تھی۔ یعنی ایسی زبان جو مقفی اور پر تکلف نہ ہو، جس کا رواج اس زمانے کی ‏بعض کتابوں میں پایا جاتا تھا۔ اردو، ریختہ، ہندی اس زمانے میں ہم معنی لفظ تھے۔ چنانچہ مرزا جان طپش نے اپنی کتاب’’شمس البیان‘‘ ‏میں ہندی کی تعریف ان الفاظ میں کی ہے، ’’ہندی عبارت از زبانِ موزونِ دہلی است۔‘‘ یعنی ہندی سے مراد دلی کی فصیح زبان ہے۔ ‏جدید ہندی جس کی اشاعت کی آج کل کوشش کی جا رہی ہے، نئے زمانے کی پیداوار ہے۔ اس نے فورٹ ولیم کالج کلکتہ میں جنم لیا۔ دراصل ‏یہ اردو کابچہ ہے۔ وہ اس طرح کہ عربی فارسی کے لفظ نکال کر ان کی جگہ سنسکرت لفظ بٹھا دیے تھے۔ مختصر یہ کہ ہمارا ادب، ہندستانی کے لفظ ‏سے خالی ہے۔ اردو کے کسی مستند اہل زبان اور غالباً ہندی کے اہل زبان نے بھی اس لفظ کو زبان کے معنوں میں کبھی استعمال نہیں کیا۔ ‏جب اس زمانے میں ہندی اردو کے جھگڑے نے زور پکڑ ا اور دونوں فریق ایک دوسرے کی مخالفت پر تلے ہوئے تھے تو انڈین نیشنل کانگریس ‏نے رفع شر کے خیال سے ہندستانی کا لفظ اختیار کیا اور اس کو ہندستان کی عام زبان قرار دیا لیکن کانگریس نے اس کی کوئی تعریف نہیں کی اور ‏نہ یہ بتایا کہ اس سے کیا مطلب ہے۔ وہ شاید اس جھگڑے میں پڑنا نہیں چاہتی تھی اور یہ اچھا ہی ہوا کیونکہ آج کے سیاسی لوگوں نے جہاں اور ‏چیزوں کو سیاست میں سان لیا ہے، غریب زبان بھی ان کی نظر کرم فرما کا شکار بن گئی ہے۔ ‏اب سوچ بچار کے بعد ہندستانی کے یہ معنی قرار پائے ہیں کہ وہ زبان جو شمالی ہند میں عا م طور پر بولی جاتی ہے اور جو ثقیل اور نامانوس ‏سنسکرت اور عربی فارسی الفاظ سے پاک ہے۔ اصل میں ہندستانی کی یہ تعریف ڈاکٹر گریریسن کے بیان سے لی گئی ہے اور اس تعریف کو ‏اکثر ان لوگوں نے قبول کر لیا ہے جو ہندستانی کے حامی ہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ حقیقت میں یہ کوئی زبان ہے بھی؟ اگر اس سے مراد وہ ‏زبان ہے جسے اٹھارہویں اور انیسویں صدی کے انگریز ہندستانی کہتے تھے اور ہمارے اس وقت کے ادیب ریختہ، ہندی اور اردو سے موسوم ‏کرتے تھے تو بے شک یہ ایک زبان ہے اور اب بھی ہندستان میں بولی اور لکھی پڑھی جاتی ہے۔ اور اگر اس سے مراد وہ زبان ہے جو آج کل ‏بعض جدت پسند حضرات نے گڑھنی اور ڈھالنی شروع کی ہے تو وہ ہمارے ملک کی زبان نہیں ہے۔ اور اگر اس سے مراد وہ زبان لی جائے ‏جودونوں ہندی اردو بولنے والوں میں مقبول ہوتو وہ ابھی وجود میں نہیں آئی ہے۔ بول چال کی زبان کی حد تک تو ٹھیک ہے، لیکن جہاں ادب ‏کی سرحد آتی ہے تو وہ رہ جاتی ہے۔ ‏گاندھی جی نے ہندی، ہندستانی کا لفظ ایجاد کیا تھا۔ چونکہ بے جوڑ تھا، مقبول نہ ہوا۔ نتیجہ یہ کہ آسان اردو کا نام ہندستانی ہوا۔ آپ فرمائیں گے ‏کہ آسان ہندی کو ہندستانی کیوں نہ کہیں؟ ضرور کہیے، کیونکہ جیساکہ میں ابھی کہہ چکا ہوں، جدید ہندی اردو ہی کا تو بچہ ہے۔ رہی یہ بات کہ ‏زبان سادہ اور آسان ہو تو بول چال میں تو عموماً سادہ ہی ہوتی ہے۔ جب بچوں یا معمولی پڑھے لکھوں کے لیے کوئی کتاب یا قصے کہانیاں لکھی ‏جاتی ہیں تو بھی زبان سادہ رکھنی پڑتی ہے۔ یہ کچھ ہماری عادت پر موقوف نہیں، دنیا کی سب زبانوں کا یہی حال ہے۔ مگر جب کوئی اچھی نظم ‏لکھنی ہوتی ہے یاعلمی یا ادبی بحث آ پڑتی ہے تو سادہ زبان کا نبھانا مشکل ہو جاتا ہے۔ محض زبان کا آسان ہونا کافی نہیں۔ اس میں جان، اثر اور ‏لطف بھی ہونا چاہیے اور یہ ہر ایک کے بس کی بات نہیں۔ ایسی زبان صرف کامل ادیب ہی لکھ سکتے ہیں ورنہ ایسی تحریر سے کیا فائدہ ‏جو سپاٹ، بےمزہ اور بھدی ہو۔ ‏دوسرے ہر ایک کا طرز تحریر الگ ہوتا ہے۔ کسی کا کوئی رنگ ہے اور کسی کا کوئی ڈھنگ۔ یہ ہر ایک کے مزاج اور افتاد طبیعت پر منحصر ہے۔ ہم ‏کسی کو مجبور نہیں کر سکتے کہ یوں نہیں یوں لکھو، اگر مجبور کریں بھی تو ممکن نہیں۔ وہ نیا ڈھنگ تو کیا اختیار کرےگا، اپنا بھی بھول جائےگا۔ ‏میرے کہنے کا منشا یہ ہے کہ یہ جو آج کل چاروں طرف ’’آسان آسان‘‘ کا پرچار کیا جا رہا ہے، مجھے تو یہ کچھ بےجا سا معلوم ہوتا ہے۔ لفظ کوئی بے ‏جان چیز تو ہے نہیں کہ جہاں چاہا اٹھایا رکھ دیا۔ اس کے گنوں کے پرکھنے والے مشاق ادیب ہی ہو سکتے ہیں۔ کسی اعلی درجے کے ادیب یا شاعر ‏کا کلام اٹھاکر دیکھیے، ہر لفظ سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ایک نگینہ ہے جو اپنی جگہ جڑا ہوا ہے۔ اسے بدل کر کوئی دوسرا لفظ رکھ دیجیے، ساری لطافت ‏اور نزاکت خاک میں مل جائےگی۔ ‏‏ علاوہ اس کے آسان اور مشکل اضافی لفظ ہیں یعنی ایک چیز جو مجھے مشکل معلوم ہوتی ہے دوسرا اسے آسان سمجھتا ہے، جسے میں آسان ‏سمجھتا ہوں وہ دوسرے کے نزدیک مشکل ہے۔ اس سے آسان اور مشکل کی کوئی حد مقرر نہیں ہو سکتی۔ یہ ذوق کی بات ہے اور ادب میں یہی ‏منزل بڑی کٹھن ہے۔ وہاں آسان اور مشکل کا کوئی سوال ہی نہیں ہوتا۔ وہاں تو یہ دیکھا جاتا ہے کہ لفظ موقع اور محل کے مناسب ہے یا نہیں۔ ‏اگر آسان لفظ بھی بے محل آ گیا توایسا ہی برا ہے جیسا بے موقع مشکل لفظ۔ البتہ یہ ضرور ہے کہ بیان پیچیدہ اور الجھا ہوانہ ہو۔ سادگی اور آسانی ‏کے یہی ایک معنی ہو سکتے ہیں۔ ‏گاندھی جی، بابو راجندر پرشاد اور ان کے ساتھیوں نے اس بات کا اعلان کیا ہے کہ ہندی اور ہندستانی میں سنسکرت لفظ ملانے کی اس لیے ‏ضرورت ہے کہ اسے بنگالی اور جنوبی ہند کے لوگ سمجھ سکیں۔ ان کا کہنا یہ بھی ہے کہ جب بنگال اور جنوبی ہند میں جائیں تو ایسی ہی سنسکرت ‏ملی زبان میں بات چیت یا تقریر کریں اور جب صوبہ سرحد اور پنجاب میں جائیں تو فارسی عربی ملی زبان میں تو ایسی صورت میں ہندستان ‏کی ایک مشترکہ زبان کہاں رہی جس کے لیے یہ سب جتن کیے جا رہے ہیں؟ اور عجیب بات یہ ہے کہ اس سنسکرت ملی ہی زبان کی وجہ سے ‏جنوبی ہند والے ہندی یا ہندستانی کی سخت مخالفت کر رہے ہیں۔ ان کو بدگمانی ہے کہ ہندی کے حیلے سے سنسکرت زبان پھیلانے کی کوشش کی ‏جا رہی ہے اور ہم ان کی زبان اور کلچر کو مٹانا چاہتے ہیں۔ ‏ہماری زبان اگر زندہ زبان ہے تو اس میں نئے نئے الفاظ آتے ہی رہیں گے خواہ وہ کسی زبان کے ہوں۔ اس سے کوئی زندہ زبان نہیں بچ سکتی ‏لیکن اس کے یہ معنی نہیں کہ جو لفظ مدت سے رائج چلے آ رہے ہیں انہیں خارج کر دیں اور ان کی جگہ ڈکشنریوں میں سے ڈھونڈ ڈھونڈ ‏کر ایسے بے ڈول، بے ڈھنگے اور کرخت الفاظ داخل کر دیں جن کے ادا کرنے میں زبان کئی کئی قلابازیاں کھائے اور کانوں کے پردے سے ‏پھٹنے لگیں۔ جولفظ پہلے سے رائج ہیں اور ہماری زبان میں گھل مل گئے ہیں، خواہ کسی زبان کے ہوں وہ اب ہمارے ہیں، غیر نہیں۔ انہیں ‏غیرسمجھ کر نکالنا سراسر حماقت ہے۔ جو ایسا کرتے ہیں وہ اپنی زبان کے دوست نہیں، دشمن ہیں۔ نئے لفظوں کے داخلے میں بھی زبان کی ‏فطرت اور ذوق کو بڑا دخل ہے۔ اندھادھند اور زبردستی لفظ داخل نہیں کیے جا سکتے۔ جو بندھ گیا سوموتی، جو کھپ گیا وہ ہمارا اور جو نہیں کھپا وہ ‏سو غیروں کا غیر۔ ‏بہار گورنمنٹ نے ایک ہندستانی کمیٹی بنائی ہے اور ہندستانی زبان کی گرامر، لغت اور مدرسوں کے لیے ریڈریں لکھوانی تجویز کی ہیں۔ ابتدائی ‏جماعتوں کے لیے ریڈریں اس زبان میں لکھنا تو کچھ مشکل نہ ہوگا لیکن اونچے درجوں کے لیے جہاں زبان کی ادبی شان بھی رکھنی ضروری ‏ہوتی ہے، کتابیں لکھنے میں مشکل پڑےگی۔ اس سے زیادہ مشکل اصطلاحات کے بنانے میں ہوگی۔ اس کا انتظار کرنا چاہیے۔ اگر اس نے بیچ ‏کا کوئی ایساراستہ نکال لیا جو مقبول ہو سکے تو یہ اس کی بڑی جیت ہوگی، کم سے کم آپس کی بات چیت اور کاروبار کے لیے بہت کارآمد ہوگی۔ اس ‏کے بعد اگر کوئی مجھ سے پوچھےگا کہ ہندستانی زبان کسے کہتے ہیں تو میں اس کے جواب میں یہ کہوں گا کہ جس زبان میں میں نے آج تقریر کی ‏ہے یہی ہندستانی ہے۔ ‏ہماری تنقید کے لیے دوجمے دیے گئے ہیں۔ ایک جملہ یہ ہے، ’’فیڈرل لیجس لیچر کے لیے فہرست رائےدہندگان تیار کرانے کے سلسلے میں ‏جو ابتدائی کاروائی کی جائےگی، اس کے بارے میں سراین این سرکار لاممبر نے آج اسمبلی میں روشنی ڈالی۔‘‘ اس جملے میں اگرچہ فیڈرل، ‏لیجس لیچر، لاممبر اور اسمبلی کے لیے انگریزی لفظ استعما ل کیے گئے ہیں، لیکن جملے کا مطلب صاف سمجھ میں آتا ہے۔ روشنی ڈالنا انگریزی ‏محاورے کا ترجمہ ہے لیکن اب ’’روشنی ڈالنا‘‘ اور ’’روشنی پڑنا‘‘ اردو میں استعمال ہونے لگے ہیں اور ان کا مفہوم کسی دوسرے لفظ سے اس ‏خوبی سے ادا نہیں ہوتا۔ جس طرح پہلے فارسی محاوروں کے ترجمے داخل ہو گئے تھے، اب بعض انگریزی محاوروں کے ترجمے داخل ہو رہے ‏ہیں۔ یہ کوئی عیب کی بات نہیں بشرطیکہ زبان میں کھپ جائیں۔ اس سے زبان میں وسعت ہوتی ہے۔ ‏دوسرا جملہ یہ ہے، ’’سنیکت پرانتیہ ویوستھاپکا پریشد میں ایک پرشن کا اتر دیتے ہوئے نیائے منتری ڈاکٹر کاٹجو نے ان ادیوگ دھندوں کی ‏سوچی دی جن کی انتی کے لیے سرکار نے سہایتا دینا سویکار کیا ہے۔‘‘ اس جملے میں سنسکرت لفظوں کی بھرمار ہے اور مطلب سمجھ میں نہیں ‏آتا۔ یہ ہماری زبان نہیں۔ یہ سراسر بناوٹی زبان ہے۔ ‏بہ اجازتآل انڈیا ریڈیو، دہلی


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.