ہنس کے فرماتے ہیں وہ دیکھ کے حالت میری
Appearance
ہنس کے فرماتے ہیں وہ دیکھ کے حالت میری
کیوں تم آسان سمجھتے تھے محبت میری
بعد مرنے کے بھی چھوڑی نہ رفاقت میری
میری تربت سے لگی بیٹھی ہے حسرت میری
میں نے آغوش تصور میں بھی کھینچا تو کہا
پس گئی پس گئی بے درد نزاکت میری
آئینہ صبح شب وصل جو دیکھا تو کہا
دیکھ ظالم یہ تھی شام کو صورت میری
یار پہلو میں ہے تنہائی ہے کہہ دو نکلے
آج کیوں دل میں چھپی بیٹھی ہے حسرت میری
حسن اور عشق ہم آغوش نظر آ جاتے
تیری تصویر میں کھنچ جاتی جو حیرت میری
کس ڈھٹائی سے وہ دل چھین کے کہتے ہیں امیرؔ
وہ مرا گھر ہے رہے جس میں محبت میری
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |