ہنگام نزع محو ہوں تیرے خیال کا
ہنگام نزع محو ہوں تیرے خیال کا
مشتاق ہوں فرشتۂ صاحب جمال کا
پیراہن اس جواں نے جو پہنا ہے چھال کا
ملتا نہیں چمن میں مزاج اک نہال کا
آلودہ بے گناہوں کے خوں سے ہے تیغ چرخ
نا فہموں کو گماں ہے شفق میں ہلال کا
شانہ بنیں گے بعد فنا اپنے استخواں
عقدہ کھلے گا گیسوؤں کے بال بال کا
بینی سہیل مشتری و زہرہ گوش ہیں
قطب شمال حسن ہے تل تیرے گال کا
کس کس بشر کو لائی ہے دنیا فریب میں
کیا کیا جواں مرید ہے اس پیر زال کا
لاتی ہے واں قضا و قدر مرغ روح کو
پانی جہاں قفس کا ہے دانہ ہے جال کا
امرد پرست ہے تو گلستاں کی سیر کر
ہر نونہال رشک ہے یاں خورد سال کا
اک دم میں جا ملوں گا عزیزان رفتہ سے
کیا عرصہ ہے زمانۂ ماضی سے حال کا
سرخ و سفید رنگ سے ہوتا ہے آشکار
وہ جسم نازنیں ہے عبیر و گلال کا
اے دل قضا نہ آئے ادھر ٹکٹکی نہ باندھ
گولی کا سامنا ہے یہ نظارہ خال کا
بوسہ دیئے سے حسن میں ہوگی کمی نہ یار
ہوتا نہیں زکوٰۃ سے نقصان مال کا
وہ چشم ہی نہیں دل وحشی کی فکر میں
ہر ترک کو ہے شوق شکار غزال کا
زنجیر و طوق ہر برس آ کر پنہا گئی
دیوانہ ہوں میں باد بہاری کی چال کا
روز سیاہ ہجر میں میرے جلے چراغ
پروانوں کو نصیب ہوا دن وصال کا
رونے کے بدلے حال پر اپنے ہنسا کئے
پردہ ہوا نہ فاش ہمارے ملال کا
دکھلایا بے نقاب جسے بندہ ہو گیا
وہ روئے سادہ نقش ہے صاحب کمال کا
کرتی ہے یاں زبان کمر یار میں کلام
معدوم ہے جواب ہمارے سوال کا
آتشؔ لحد سے اٹھوں گا کہتا یہ روز حشر
مشتاق ہوں میں یار کے حسن و جمال کا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |