ہوئے آج بوڑھے جوانی میں کیا تھے
Appearance
ہوئے آج بوڑھے جوانی میں کیا تھے
جب اٹھے تھے زانو سے ہاتھ آشنا تھے
جہاں کی تو ہر چیز میں اک مزہ تھا
نہ سمجھے کہ کس شے کے ہم مبتلا تھے
نہ کافر سے خلعت نہ زاہد سے الفت
ہم اک بزم میں تھے پہ سب سے جدا تھے
نہ تھا میرے جنگل میں آزاد کوئی
بگولے بھی پابند زلف ہوا تھے
مزار غریب تأسف کی جا ہے
وہ سوتے ہیں پھرتے جو کل جا بہ جا تھے
بنا کر بگاڑا ہمیں کیوں جہاں میں
یہ سب حرف کیا سہو کلک قضا تھے
کئے آخری نالہ دو چار میں نے
وہی نالہ بانگ شکست درا تھے
خدا جانے دنیا میں کس کو تھی راحت
ہوسؔ ہم تو جینے سے اپنے خفا تھے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |