ہوئے کیوں اس پہ عاشق ہم ابھی سے
ہوئے کیوں اس پہ عاشق ہم ابھی سے
لگایا جی کو ناحق غم ابھی سے
دلا ربط اس سے رکھنا کم ابھی سے
جتا دیتے ہیں تجھ کو ہم ابھی سے
ترے بیمار غم کے ہیں جو غم خوار
برستا ان پہ ہے ماتم ابھی سے
غضب آیا ہلیں گر اس کی مژگاں
صف عشاق ہے برہم ابھی سے
اگرچہ دیر ہے جانے میں تیرے
نہیں پر اپنے دم میں دم ابھی سے
بھگو رہوے گا گریہ جیب و دامن
رہے ہے آستیں پر نم ابھی سے
تمہارا مجھ کو پاس آبرو تھا
وگرنہ اشک جاتے تھم ابھی سے
لگے سیسہ پلانے مجھ کو آنسو
کہ ہو بنیاد غم محکم ابھی سے
کہا جانے کو کس نے مینہ کھلے پر
کہ چھایا دل پہ ابر غم ابھی سے
نکلتے ہی دم اٹھواتے ہیں مجھ کو
ہوئے بے زار یوں ہمدم ابھی سے
ابھی دل پر جراحت سو نہ دو سو
دھرا ہے دوستو مرہم ابھی سے
کیا ہے وعدۂ دیدار کس نے
کہ ہے مشتاق اک عالم ابھی سے
مرا جانا مجھے غیروں نے اے ذوقؔ
کہ پھرتے ہیں خوش و خرم ابھی سے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |