ہوائے دور مے خوش گوار راہ میں ہے
Appearance
ہوائے دور مے خوش گوار راہ میں ہے
خزاں چمن سے ہے جاتی بہار راہ میں ہے
گدا نواز کوئی شہسوار راہ میں ہے
بلند آج نہایت غبار راہ میں ہے
عدم کے کوچ کی لازم ہے فکر ہستی میں
نہ کوئی شہر نہ کوئی دیار راہ میں ہے
نہ بدرقہ ہے نہ کوئی رفیق ساتھ اپنے
فقط عنایت پروردگار راہ میں ہے
سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے
ہزار ہا شجر سایہ دار راہ میں ہے
مقام تک بھی ہم اپنے پہنچ ہی جائیں گے
خدا تو دوست ہے دشمن ہزار راہ میں ہے
تھکیں جو پاؤں تو چل سر کے بل نہ ٹھہر آتشؔ
گل مراد ہے منزل میں خار راہ میں ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |