ہولی (نظیر اکبر آبادی, II)
پھر آن کے عشرت کا مچا ڈھنگ زمیں پر
اور عیش نے عرصہ ہے کیا تنگ زمیں پر
ہر دل کو خوشی کا ہوا آہنگ زمیں پر
ہوتا ہے کہیں راگ کہیں رنگ زمیں پر
بجتے ہیں کہیں تال کہیں زنگ زمیں پر
ہولی نے مچایا ہے عجب رنگ زمیں پر
گھنگرو کی پڑی آن کے پھر کان میں جھنکار
سارنگی ہوئی بین طنبوروں کی مددگار
طبلوں کے ٹھکے طبل یہ سازوں کے بجے تار
راگوں کے کہیں غل کہیں ناچوں کے بندھے تار
ڈھولک کہیں جھنکارے ہے مردنگ زمیں پر
ہولی نے مچایا ہے عجب رنگ زمیں پر
مستی میں اٹھا آنکھ جدھر دیکھو اہاہا
ناچے ہے طوائف کہیں مٹکے ہے بھویا
چلتے ہیں کہیں جام کہیں سوانگ کا چرچا
او رنگ کو گلیوں میں جو دیکھو تو ہر اک جا
بہتی ہیں امنڈ کر جمن و گنگ زمیں پر
ہولی نے مچایا ہے عجب رنگ زمیں پر
بھاگے ہے کہیں رنگ کسی پر جو کوئی ڈال
وہ پوٹلی مارے ہے اسے دوڑ کے فی الحال
یہ ٹانگ گھسیٹے ہے تو وہ کھینچے پکڑ بال
وہ ہاتھ مروڑے تو یہ توڑے ہے کھڑا گال
اس ڈھب کے ہر اک جا پہ مچے ڈھنگ زمیں پر
ہولی نے مچایا ہے عجب رنگ زمیں پر
بیٹھے ہیں سب آپس میں نہیں ایک بھی کڑوا
پچکاری اٹھا کر کوئی جھمکاوے ہے کھڑوا
بھرتے ہیں کہیں مشک کہیں رنگ کا گڑوا
کیا شاد وہ ہوتا ہے جسے کہتے ہیں بھڑوا
سننے میں یہاں تک نہیں اب ننگ زمیں پر
ہولی نے مچایا ہے عجب رنگ زمیں پر
ہولی کی نظیرؔ اب جو بہاریں ہیں اہاہا
محبوب رنگیلوں کی قطاریں ہیں اہاہا
کپڑوں پہ جمی رنگ کی دھاریں ہیں اہاہا
سب ہولی ہے ہولی ہی پکارے ہیں اہاہا
کیا عیش ہے کیا رنگ ہے کیا ڈھنگ زمیں پر
ہولی نے مچایا ہے عجب رنگ زمیں پر
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |