ہولی (نظیر اکبر آبادی, III)
ملنے کا تیرے رکھتے ہیں ہم دھیان ادھر دیکھ
بھاتی ہے بہت ہم کو تیری آن ادھر دیکھ
ہم چاہنے والے ہیں تجرے جان ادھر دیکھ
ہولی ہے صنم ہنس کہ تُو اک آن ادھر دیکھ
اے رنگ بھرے نو گُل خنداں ادھر دیکھ
ہم دیکھنے ترا یہ جمال اس گھڑی اے جاں
آئے ہیں یہی کرکہ خیال اس گھڑی اے جاں
تُو دل میں نہ رکھ ہم سے ملال اس گھڑی اے جاں
مکھڑے پہ تیرے دیکھ گلال اِس گھڑی اے جاں
ہولی بھی یہی کہتی ہے اے جان ادھر دیکھ
اب زرد یہ چیرا جُو تیرے سر پہ جما ہے
اور اس پہ یہ طرہ جُو زری کا بھی دھرا ہے
نیما بھی تیرا رنگ سے کیسر کے بھرا ہے
پوشاک پہ تری گل صد برگ فدا ہے
نرگس تیری آنکھوں پہ ہے قربان ادھر دیکھ
ہولی کی طرب ہے جُو ہر اک جا میں نمودار
سنتے ہیں کہیں راگ کہیں مے سے ہیں سرشار
ہے دل میں ہمیں تو تیری نظروں سے سروکار
پچکاری ہمارے تو لگا یا نہ لگا یار
ہم کو تو فقط ہے یہی ارمان ادھر دیکھ
ہے دھوم سے ہولی کی کہیں شور کہیں غل
ہوتا نہیں کچھ رنگ چھڑکنے میں تأمل
دف بجتے ہیں سب ہنستے ہیں اُور دھوم ہے بالکل
ہولی کی خوشی میں تو نہ کر ہم سے تغافل
اے جان ہمارا بھی کہا مان ادھر دیکھ
ہے دید کی ہر آن طلب دل کو ہمارے
جیتے ہیں فقط تیری نگاہوں کہ سہارے
ہیں یاں جو کھڑے آن کہ اس شوق کہ مارے
ہم ایک نگہ کہ تیرے مشتاق ہیں پیارے
ٹک پیار کی نظروں سے میری جان ادھر دیکھ
ہر چار طرف ہولی کی دھومیں ہیں اہا ہا
دیکھو جدھر آتا ہے نظر روز تماشا
ہر آن جھمکتا ہے عجب عیش کا چرچا
ہولی کو نظیرؔ اب تُو کھڑا دیکھے ہے یاں کیا
محبوب یہ آیا ارے نادان ادھر دیکھ
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |