ہولی (نظیر اکبر آبادی, IV)
میاں تُو ہم سے نہ رکھ کچھ غبار ہولی میں
کے روٹھے ملتے ہیں آپس میں یار ہولی میں
مچی ہے رنگ کی کیسی بہار ہولی میں
ہوا ہے زور چمن آشکار ہولی میں
عجب یہ ہند کی دیکھی بہار ہولی میں
اب اس مہینے میں پہنچی ہے یاں تلک یہ چال
فلک کا جامہ پہن سرخیٔ شفق سے لال
بنا کہ چاند کہ سورج کہ آسماں پر تھال
فرشتے کھیلیں ہیں ہولی بنا عبیر و گلال
تُو آدمی کا بھلا کیا شمار ہولی میں
سنا کہ ہولی جو زہرہ بجاتی ہے طبنور
تُو اس کہ راگ سے بارہ بروج ہیں معمور
چھوؤں ستاروں کہ اوپر پڑا ہے رنگ کا نور
سبھوں کہ سر پہ یہ ہر دم پکارتی ہے حور
جو گھر کہ ابر کبھی اس مزے میں آتا ہے
تُو بادلوں میں وُہ کیا کیا ہی رنگ لاتا ہے
خُوشی سے رعد بھی ڈھولک کی گت لگاتا ہے
ہوا کو ہولیاں گا گا کہ کیا نچاتا ہے
تمام رنگ سے پر ہے بہار ہولی میں
چمن میں دیکھو تُو دِن رات ہولی رہتی ہے
شراب ناب کی گلشن میں نہر بہتی ہے
نسیم پیار سے غنچے کا ہاتھ گہتی ہے
تُو باغبان سے بلبل کھڑی یہ کہتی ہے
نہ چھیڑ مُجھ کو تُو اے بد شعار ہولی میں
گلوں نے پہنے ہیں کیا کیا ہی جوڑے رنگ برنگ
کے جیسے لڑکے یہ معشوق پہنتے ہیں تنگ
ہوا سے پتوں کہ بجتے ہیں تال اُور مردنگ
تمام باغ میں کھیلیں ہیں ہولی گُل کہ سنگ
عجب طرح کی مچی ہے بہار ہولی میں
امیر جتنے ہیں سب اپنے گھر میں ہیں خوش حال
قبائیں پہنے ہوئے تنگ تنگ گُل کی مثال
بنا کے گہری طرح حوض مل کہ سب فی الحال
مچائے ہولیاں آپس میں لے عبیر و گلال
بنے ہیں رنگ سے رنگیں نگار ہولی میں
یہ سیر ہولی کی ہم نے تُو برج میں دیکھی
کہیں نہ ہووے گی اس لطف کی میاں ہولی
کوئی تُو ڈوبا ہے دامن سے لے کہ تا چولی
کوئی تُو مرلی بجاتا ہے کہہ کنہیا جی
ہے دھوم دھام پہ بے اختیار ہولی میں
گھروں سے سانوری اُور گوریاں نکل چلیاں
کسنبی اوڑھنی اور مست کرتی اچھلیاں
جدھر کو دیکھیں ادھر مچ رہی ہیں رنگ رلیاں
تمام برج کی پریوں سے بھر رہیں گلیاں
مزا ہے سیر ہے در ہر کنار ہولی میں
جُو کچھ کہانی ہے ابلا بہت پیا ماری
چلی ہے اپنے پیا پاس لے کے پچکاری
گلال دیکھ کہ پھر چھاتی کھول دی ساری
پیا کی چھاتی سے لگتی وُہ چاؤ کی ماری
نہ تاب دِل کو رہی نے قرار ہولی میں
جُو کوئی سیانی ہے ان میں تُو کوئی ہے نا کند
وُہ شور بور تھی سب رنگ سے نپٹ یک چند
کوئی دلاتی ہے ساتھن کو یار کی سوگند
کے اب تُو جامہ و انگیا کہ ٹولے ہیں سب بند
پھر آ کے کھلیں گے ہو کر دو چار ہولی میں
نظیرؔ ہولی کا موسم جُو جگ میں آتا ہے
وُہ ایسا کون ہے ہولی نہیں مناتا ہے
کوئی تُو رنگ چھڑکتا ہے کوئی گاتا ہے
جُو خالی رہتا ہے وُہ دیکھنے کو جاتا ہے
جُو عیش چاہو سو ملتا ہے یار ہولی میں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |