ہولی (نظیر اکبر آبادی, VI)
قاتِل جُو مرا اوڑھے اِک سرخ شال آیا
کھا کھا کہ پان ظالم کر ہونٹھ لال آیا
گویا نکل شفق سے بدر کمال آیا
جب منہ سے وہ پری رو مل کر گلال آیا
اِک دم تُو دیکھ اس کو ہولی کو حال آیا
عیش و طرب کا سامان ہے آج سب گھر اس کہ
اب تو نہیں ہے کوئی دنیا میں ہمسر اس کہ
از ماہ تاب ماہی بندے ہیں بے زر اس کہ
کل وقت شام سورج ملنے کو منہ پر اس کہ
رکھ کر شفق کہ سر پر طشت گلال آیا
خالص کہیں سے تازی اِک زعفران منگا کر
مشک و گلاب میں بھی مل کر اسے بسا کر
شیشے میں بھر کہ نکلا چپکے لگا چھپا کر
مدت سے آرزو تھی اک دم لگا چکا کر
اِک دن صنم پہ جا کر میں رنگ ڈال آیا
ارباب بزم بھر تُو وہ شاہ اپنے لے کر
سب ہم نشین حُسب دل خواہ اپنے لے کر
چالاک چست کافر گمراہ اپنے لے کر
دس بیس گُل رخوں کو ہم راہ اپنے لے کر
یُوں ہیں بھگونے مُجھ کو وُہ خوش جمال آیا
عشرت کا اس گھڑی تھا اسباب سب مہیا
بہتا تھا حُسن کا بھی اس جا پہ ایک دریا
ہاتھوں میں دلبروں کہ ساغر کسی کے شیشہ
کمروں میں جھولیوں میں سیروں گلال باندھا
اور رنگ کی بھی بھر کر مشک و پکھال آیا
عیارگی سے پہلے اپنے تئیں چھپا کر
چاہا کہ میں بھی نکلوں ان میں سے چھٹ چھٹا کر
دوڑے کئی یہ کہہ کر جاتا ہے دم چرا کر
اتنے میں گھیر مُجھ کو اور شور و غل مچا کر
اس دم کمر کمر تک رنگ و گلال آیا
یہ چہل تُو کچھ اپنی قسمت سے مچ رہی تھی
یہ آبرو کی پردہ حرمت سے بچ رہی تھی
کیسا سماں تھا کیسی شادی سی رچ رہی تھی
اس وقت مرے سر پر اِک دھوم مچ رہی تھی
اُک دھوم میں بھی مُجھ کو جُو کچھ خیال آیا
لازم نہ تھی یہ حرکت اے خوش صفیر تُجھ کو
اظہر ہے سب کہے ہیں مل کر شریر تُجھ کو
کرتے ہیں اب ملامت خرد و کبیر تُجھ کو
لاحول پڑھ کہ شیطان بولا نظیرؔ تُجھ کو
اب ہولی کھیلنے کا پورا کمال آیا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |