ہیں ہم بھی خوب چاہ کا ساماں کیے ہوئے
Appearance
ہیں ہم بھی خوب چاہ کا ساماں کیے ہوئے
بیٹھے ہیں گھر کو پہلے ہی ویراں کیے ہوئے
دھوکے میں آ کے باغ جہاں میں چلے گئے
دل میں گمان کوچۂ جاناں کیے ہوئے
بیٹھا ہوں روز ہجر میں ہر اک گھڑی پہ میں
عزم شمار ریگ بیاباں کئے ہوئے
پاس ان کو رہوے اپنے جو ناموس و ننگ کا
ہم بھی پھریں گے چاک گریباں کیے ہوئے
عارفؔ بتا کہ سر ہے یہ کس دن کے واسطے
پھرتا ہے آج تیغ وہ عریاں کیے ہوئے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |