ہیں یہ سارے جیتے جی کے واسطے
ہیں یہ سارے جیتے جی کے واسطے
کون مرتا ہے کسی کے واسطے
آدمی سہتا ہے کیا کیا ذلتیں
نفس مردود شقی کے واسطے
ہم بھی جائیں گے سلیماں تک کبھی
عرض کرنے اک پری کے واسطے
در بدر کوچوں میں ہم بھی پھر چکے
ایک حسن خانگی کے واسطے
کشت زار زعفراں سے کم نہیں
رنگ زرد اپنا ہنسی کے واسطے
کیوں دیے ہیں تو نے قسام ازل
رنج لاکھوں ایک جی کے واسطے
دو زکوٰۃ حسن کچھ درویش کو
ہیں بڑے رتبے سخی کے واسطے
اک سے اک ہیں ایک سے لے لاکھ تک
صف شکن مرد جری کے واسطے
غم نے اس درجہ کیا دل میں ہجوم
جا نہیں ہے خرمی کے واسطے
اور کیا ہو یار کی آنکھوں سے کام
خلق ہیں جادوگری کے واسطے
یاد رکھنا شرط اور مشروط ہے
آدمیت آدمی کے واسطے
رنج و اندوہ و ملال و درد و غم
صدمے ہیں یہ آدمی کے واسطے
سبزۂ مدفن اگا تھا کیوں فلک
آہوؤں کی کیا چری کے واسطے
لڑ گئے وہ اک ذرا سی بات میں
پہروں روٹھے اک گھڑی کے واسطے
جی نہ گھبرائے ترا بے مشغلے
عشق کر لے دل لگی کے واسطے
کیا مجھے پیدا کیا ہے اے خدا
ان بتوں کی بندگی کے واسطے
بے کسی میرے لیے پیدا ہوئی
میں بنا ہوں بے کسی کے واسطے
بولا مرغ نامہ بر کو کر کے ذبح
یہ سزا ہے ایلچی کے واسطے
دھگدگی میں جان اٹکی ہے مری
ہائے کس چمپا کلی کے واسطے
باریاب خلوت محبوب ہے
کیا شرف ہے آرسی کے واسطے
مرقد تیرہ میں کافی ہے مجھے
داغ سودا روشنی کے واسطے
کیجئے ہر دم عبث تن پروری
اے اجل کس زندگی کے واسطے
خامۂ قدرت نے کھینچیں وہ بھویں
راستی یہ ہے کجی کے واسطے
حشر کے دن رندؔ کو بخشائیو
یا علی روح نبی کے واسطے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |