Jump to content

ہے آٹھ پہر تو جلوہ نما تمثال نظر ہے پرتو رخ

From Wikisource
ہے آٹھ پہر تو جلوہ نما تمثال نظر ہے پرتو رخ (1900)
by حبیب موسوی
324749ہے آٹھ پہر تو جلوہ نما تمثال نظر ہے پرتو رخ1900حبیب موسوی

ہے آٹھ پہر تو جلوہ نما تمثال نظر ہے پرتو رخ
عارض ہے قمر خورشید جبیں شب زلف سحر ہے پرتو رخ

آنکھوں میں ہوا ہے گھر تیرا دل کہتا ہے رکھ ہر دم پردہ
ہو چشم تمنا کیوں کر وا عاشق کی نظر ہے پرتو رخ

جب مد نظر اغیار تھے واں تاریک تھا یاں آنکھوں میں جہاں
روشن ہے چراغ روح رواں کیا آج ادھر ہے پرتو رخ

کی فکر مگر باعث نہ کھلا اے لالہ رخ بے مہر و وفا
بتلا تو یہ دل کا درد ہے کیا گر داغ جگر ہے پرتو رخ

غش کوئی کسی کو ہے سکتا ہے نور خدا تیرا جلوہ
ہو دخل ترے گھر میں کس کا یاں حاجب در ہے پرتو رخ

اٹھ عاشق مضطر سجدے کر آئی ہے شب مقصد کی سحر
وہ دیکھتے ہیں غرفے سے ادھر اے خاک بسر ہے پرتو رخ

شہرہ ہے بہار عارض کا بلبل کی طرح عاشق ہیں فدا
ہے باغ جوانی روح افزا برگ گل تر ہے پرتو رخ

جس سے ہو آنسو خون جگر بن جائے عقیق و لعل و گہر
خورشید و قمر اور سیم و زر اے جان مگر ہے پرتو رخ

بیتاب حبیبؔ مضطر ہے حیران کبھی گہ ششدر ہے
پھرتا ہے گل خورشید صفت منہ اس کا جدھر ہے پرتو رخ


This work was published before January 1, 1929 and is anonymous or pseudonymous due to unknown authorship. It is in the public domain in the United States as well as countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 100 years or less since publication.