ہے جنبش مژگاں میں تری تیر کی آواز
Appearance
ہے جنبش مژگاں میں تری تیر کی آواز
اس تیر میں ہے صید کی تکبیر کی آواز
مشتاق ہوں تجھ لب کی فصاحت کا ولیکن
'رانجھا' کے نصیبوں میں کہاں ہیر کی آواز
تو خسرو خوباں ہے کہ لے ہند سیں تا روم
پہنچی ہے ترے حسن جہانگیر کی آواز
حیرت کے مقامات میں قانون نوا نہیں
ہے ساز خموشی لب تصویر کی آواز
دیوانے کوں مت شور جنوں یاد دلاؤ
ہرگز نہ سناؤ اسے زنجیر کی آواز
پیتا ہوں جدائی میں تری گھونٹ لہو کی
سن غنچہ دہن عاشق دلگیر کی آواز
اے جان سراجؔ آ کے پتنگوں کی خبر لیو
سن جاؤ مرے نالۂ شب گیر کی آواز
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |