ہے دھیان جو اپنا کہیں اے ماہ جبیں اور
Appearance
ہے دھیان جو اپنا کہیں اے ماہ جبیں اور
جانا ہے کہیں اور تو جاتا ہوں کہیں اور
جب تو ہی کرے دشمنی ہم سے تو غضب ہے
تیرے تو سوا اپنا کوئی دوست نہیں اور
میں حشر کو کیا روؤں کہ اٹھ جاتے ہی تیرے
برپا ہوئی اک مجھ پہ قیامت تو یہیں اور
وعدہ تو ترے آنے کا ہے سچ ہی ولیکن
بازو کے پھڑکنے سے ہوا دل کو یقیں اور
آخر تو کہاں کوچہ ترا اور کہاں ہم
کر لیویں یہاں بیٹھ کے اک آہ حزیں اور
تھا روئے زمیں تنگ زبس ہم نے نکالی
رہنے کے لیے شعر کے عالم میں زمیں اور
نام اپنا لکھاوے تو لکھا دل پہ تو میرے
اس نام کو بہتر نہیں اس سے تو نگیں اور
ابرو کی تو تھی چین مرے دل پہ غضب پر
مژگاں سے نمودار ہوئے خنجر کیں اور
نکلے تو اسی کوچہ سے یہ گم شدہ نکلے
ڈھونڈھے ہے حسنؔ دل کو تو پھر ڈھونڈ وہیں اور
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |