Jump to content

ہے رشک وصل سے غم دل دار ہی بھلا

From Wikisource
ہے رشک وصل سے غم دل دار ہی بھلا
by حسرتؔ عظیم آبادی
302875ہے رشک وصل سے غم دل دار ہی بھلاحسرتؔ عظیم آبادی

ہے رشک وصل سے غم دل دار ہی بھلا
راحت سے ایسی ہم کو وو دل آزار ہی بھلا

دنیا میں یارو یار وفادار ہی نہیں
اور جو نہ ہو تو رہنا ہے بے یار ہی بھلا

معشوق کا نظارہ میسر ہو یا نہ ہو
عاشق ہمیشہ طالب دیدار ہی بھلا

زاری پہ میری رحم بھی کر آ خدا کو مان
کافر رہے گا ہم سے تو بیزار ہی بھلا

اطوار بد ہے غیر سے خلطہ مرے حضور
اس کے عوض نہ کر تو ہمیں پیار ہی بھلا

زخموں سے غم کے تیرا کلیجہ تو چھل گیا
بلبل ہے ایسے گل سے تجھے خار ہی بھلا

اک جرعہ درد مے پہ ہو اتنا نہ تلخ و تند
ساقی میں ایسے مست سے ہشیار ہی بھلا

حسرتؔ برا کیا میں اٹھایا دل اس سے کیوں
دل دار گر نہ تھا تو دل آزار ہی بھلا


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.