ہے رشک وصل سے غم دل دار ہی بھلا
Appearance
ہے رشک وصل سے غم دل دار ہی بھلا
راحت سے ایسی ہم کو وو دل آزار ہی بھلا
دنیا میں یارو یار وفادار ہی نہیں
اور جو نہ ہو تو رہنا ہے بے یار ہی بھلا
معشوق کا نظارہ میسر ہو یا نہ ہو
عاشق ہمیشہ طالب دیدار ہی بھلا
زاری پہ میری رحم بھی کر آ خدا کو مان
کافر رہے گا ہم سے تو بیزار ہی بھلا
اطوار بد ہے غیر سے خلطہ مرے حضور
اس کے عوض نہ کر تو ہمیں پیار ہی بھلا
زخموں سے غم کے تیرا کلیجہ تو چھل گیا
بلبل ہے ایسے گل سے تجھے خار ہی بھلا
اک جرعہ درد مے پہ ہو اتنا نہ تلخ و تند
ساقی میں ایسے مست سے ہشیار ہی بھلا
حسرتؔ برا کیا میں اٹھایا دل اس سے کیوں
دل دار گر نہ تھا تو دل آزار ہی بھلا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |