Jump to content

ہے فنا بسم اللہ دیوان عشق

From Wikisource
ہے فنا بسم اللہ دیوان عشق (1866)
by شاہ آثم
304425ہے فنا بسم اللہ دیوان عشق1866شاہ آثم

ہے فنا بسم اللہ دیوان عشق
آفرینہا بر سبق خوانان عشق

زہرۂ دوزخ ہے آگے اس کے آب
الامان از آتش سوزان عشق

ہے رہا قید غم کونین سے
پائے تا سر قیدیٔ زندان عشق

تنگ رکھتا ہے دوا کے نام سے
مبتلائے درد بے درمان عشق

خون دل پیتا ہے اور ہے جانتا
نعمت عظمی اسے مہمان عشق

غور کر دیکھا تو ہفت اقلیم میں
حکمراں ہے بے گماں سلطان عشق

کشتیٔ گردوں سراپا ڈوب جائے
جوش میں آوے اگر طوفان عشق

بندہ کو مولا بناتا ہے مدام
کس قدر ہے یے عیاں احسان عشق

بھول جاوے زہد و تقویٰ زاہدا
گر کرے تو سیر کفرستان عشق

فیض سے آثمؔ شہ خادم کے ہے
سیر میں اپنی بہارستان عشق


This work was published before January 1, 1929 and is anonymous or pseudonymous due to unknown authorship. It is in the public domain in the United States as well as countries and areas where the copyright terms of anonymous or pseudonymous works are 100 years or less since publication.