ہے یاد تجھ سے میرا وہ شرح حال دینا
Appearance
ہے یاد تجھ سے میرا وہ شرح حال دینا
اور سن کے تیرا اس کو ہنس ہنس کے ٹال دینا
کر کر کے یاد اس کی بے حال ہوں نہایت
فرصت ذرا تو مجھ کو تو اے خیال دینا
اس زلف کج کے عقدے ہرگز کھلے نہ مجھ پر
کیوں اس کو شانہ کر کے ایک ایک بال دینا
میں مدعا کو اپنے محمل کہوں ہوں تجھ سے
گوش دل اپنا ایدھر صاحب جمال دینا
اس عمر بھر میں تجھ سے مانگا ہے ایک بوسہ
خالی پڑے نہ پیارے میرا سوال دینا
ہم سے رکھائیاں اور منہ جھلسے مدعی کا
بوسہ پہ بوسہ ہر دم دوں بے سوال دینا
یارب کسی پہ ہرگز عاشق کوئی نہ ہو جو
دل ہاتھ دلبروں کے ہے بد مآل دینا
وہ مہرباں کہ ہم کو الطاف بر محل سے
پاس اپنے سے تھا اس کو اٹھنے محال دینا
دیکھے ہے دور سے تو کہتا ہے بے مروت
یہ کون آ گھسا ہے اس کو نکال دینا
قابو ہے تیرا حسرتؔ مت چھوڑ مدعی کو
دشمن کو مصلحت نیں ہرگز مجال دینا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |