یاد آتی ہیں ہمیں جان تمہاری باتیں
Appearance
یاد آتی ہیں ہمیں جان تمہاری باتیں
ہائے وہ پیار کی آواز وہ پیاری باتیں
پہروں چپ رہتے ہیں ہم اور اگر بولتے ہیں
وہی پھر پھر کے الٹتی ہیں تمہاری باتیں
غیر ہر دم مجھے باتیں جو سنا جاتے ہیں
جانتا ہوں یہ میں اے جان تمہاری باتیں
یاد آتا ہے ترا کیا کے عوض کا کہنا
ہائے پھر کب میں سنوں گا وہ گنواری باتیں
ہے بری بات یہ اغیار سے باتیں کرنی
ورنہ اے جان تری اچھی ہیں ساری باتیں
اس طرح بول نکلتے نہ سنے تھے ہم نے
کرتی ہے صاف صنم تیری ستاری باتیں
تو وہ اعجاز بیاں ہے کہ مسیحا سمجھیں
سن لیں اے جان کسی دن جو جواری باتیں
اس لیے اشک بہاتا ہوں دم فکر سخن
کہ ہمیشہ رہیں دنیا میں یہ جاری باتیں
تو وہ گل ہے کہ اگر کان دھرے گلشن میں
ہو زباں موج کرے باد بہاری باتیں
کیجیے سحر بیانی سے مسخر کیوں کر
کبھی سنتا نہیں ناسخؔ وہ ہماری باتیں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |