Jump to content

یاد ایام کہ خوبی سے خبر تجھ کو نہ تھی

From Wikisource
یاد ایام کہ خوبی سے خبر تجھ کو نہ تھی
by میر تقی میر
314976یاد ایام کہ خوبی سے خبر تجھ کو نہ تھیمیر تقی میر

یاد ایام کہ خوبی سے خبر تجھ کو نہ تھی
سرمہ و آئینہ کی اور نظر تجھ کو نہ تھی
فکر آراستگی شام و سحر تجھ کو نہ تھی
زلف آشفتہ کی سدھ دو دو پہر تجھ کو نہ تھی
شانہ تھا نابلد کوچۂ گیسو تیرا
آئینہ کاہے کو تھا حیرتی رو تیرا

آگہی حسن سے اپنے تجھے زنہار نہ تھی
اپنی مستی سے تری آنکھ خبردار نہ تھی
پاؤں بے ڈول نہ پڑتا تھا یہ رفتار نہ تھی
ہر دم اس طور کمر میں ترے تلوار نہ تھی
خون یوں کاہے کو کوچے میں ترے ہوتے تھے
دل زدے کب تری دیواروں تلے روتے تھے

خواہش دل کی ملا کرتی تھی ہر ساعت داد
طبع میں تیرے تصرف تھا ہمیں حد سے زیاد
مطلقاً تجھ سے نہ مربوط تھے ارباب عناد
کاہے کو رہتے تھے کوچے میں ترے شور و فساد
طور پر اپنے ترے پاس ہم آجاتے تھے
حسب خواہش تجھے ہر شام و سحر پاتے تھے

بند جامے کا جو وا ہوتا تو وا رہتا تھا
بے تکلف مرے گھر رات کو آ رہتا تھا
تھوڑی رنجش میں گلے ہی سے لگا رہتا تھا
ٹک جدا رہتے تو دیر آنکھ ملا رہتا تھا
اس قدر قدر نہ تھی اپنی تری آنکھوں میں
لعب بازی میں بھی رہتا تھا مری آنکھوں میں

آستینوں میں نہ تھے چاک نہ زہ دامن میں
تکمے کاہے کے تئیں لگتے تھے پیراہن میں
یہ طرح کب تھی دوپٹے کے تلے چتون میں
پھرتے کس روز تھے یوں کپڑے پہن آنگن میں
بند ہلتے ہوئے ہر دم نہ کھڑے رہتے تھے
پیچ پگڑی کے گلے میں نہ پڑے رہتے تھے

کس دن اتنا تھا پراگندگی مو کا خیال
دو دو دن چہرے پہ بکھرے ہی رہا کرتے بال
لعل جاں بخش نہ رہتے تھے کبھو اتنے لال
خوبی خندہ نہ لوگوں کے جیوں کی تھی وبال
پان سے شوق نہ تھا کیسا مسی کا مذکور
غصے ہوجاتے تھے سن ایسے کسی کا مذکور

تنگ پوشی سے نہ محظوظ تمھیں پاتے تھے
تنگ جامے جو سیے جاتے تو گھبراتے تھے
مسکی چولی سے نہ تم در پہ کبھو آتے تھے
لپٹے دامن سے الٹ گھر ہی میں پھر جاتے تھے
یا تو اب کہنی پھٹی مونڈھے چسے رہتے ہیں
باہر اندر ہو کہیں بند کسے رہتے ہیں

شوق زینت سے نہ تھا ربط نہ رعنائی سے
دل نہ اتنا تھا لگا خوبی مرزائی سے
اب تو سو بار کمر بندھتی ہے اکلائی سے
دیکھتے رہتے ہو ترکیب سے خود رائی سے
روسیہ آئینہ سے تم کو فراغت ہی نہیں
سرمۂ تیرہ دروں سے کہیں فرصت ہی نہیں

شانہ اب ہاتھ میں ہے زلف بنا کرتی ہے
مسی دانتوں میں کئی بار لگا کرتی ہے
پاس سرمے کے سلائی بھی رہا کرتی ہے
آنکھ رعنائی پہ اپنی ہی پڑا کرتی ہے
جان آنکھوں میں کسی کی ہو نظر تم کو نہیں
غش کرے کوئی ستم دیدہ خبر تم کو نہیں

کب گلی کوچوں میں پھرتے تھے لیے تم تلوار
پرتلا کاہے کو رہتا تھا گلے کا یوں ہار
ساتھ خونخوار نہ پھرتے تھے نہ تم تھے خونخوار
دم میں ناحق کبھو یوں جان نہ رکھتے تھے مار
مایۂ فتنہ و پرخاش ہوئے ہو اب تو
شوخ و شلتاقی و اوباش ہوئے ہو اب تو

پیشتر ہم سے کوئی تیرا طلبگار نہ تھا
ایک بھی نرگس بیمار کا بیمار نہ تھا
جنس اچھی تھی تری لیک خریدار نہ تھا
ہم سوا کوئی ترا رونق بازار نہ تھا
کتنے سودائی جو تھے دل نہ لگا سکتے تھے
آنکھیں یوں موند کے وے جی نہ چلا سکتے تھے

یا تو ہم ہی تھے کہ اب ہم سے نہیں کچھ یاری
مفت برباد گئی عزت و حرمت ساری
بار خاطر رہے اب ہم کو بھی ہے بیزاری
یعنی اس شہر سے اٹھ جانے کی ہے تیاری
رتبۂ غیر نہیں آنکھوں سے دیکھا جاتا
طاقت اب یہ دل بے تاب نہیں ٹک لاتا

کوئی نادیدہ محب سادہ لگا لیں گے ہم
سادہ نامرتکب بادہ لگا لیں گے ہم
بوس و آغوش کا آمادہ لگا لیں گے ہم
بند خودرائی سے آزادہ لگا لیں گے ہم
اس کو آغوش تمنا میں اب اپنی لیں گے
اس سے داد دل ناکام سب اپنی لیں گے

اس کی کھینچیں گے علی الرغم ترے مرزائی
اس کو سکھلائیں گے طرز و روش رعنائی
مجلسوں میں اسے لاویں گے بصد زیبائی
صحبت اے دشمن جاں اس سے اگر بر آئی
تو تجھے دیکھیو کس طور کڑھاتے ہیں ہم
چھیڑیں کیا رکھتے ہیں کس ڈھب سے ستاتے ہیں ہم

چہرے کو اس کے کر آراستہ دلخواہ کریں
آرسی اس کو دکھا حسن سے آگاہ کریں
راہ خوبی کی بتاکر اسے گمراہ کریں
تو سہی ضد سے ترے ایسا ہی شتاہ کریں
کہ تجھے سدھ نہ رہے خوبی و رعنائی کی
دھجیاں لے تری اس جامۂ زیبائی کی

دست افشاں ہو تو عزت تری سب ہاتھ سے جائے
چشم مکحول کو دکھلائے تو تو آنکھ چھپائے
مار ٹھوکر چلے دامن کو تو تو سر نہ ہلائے
جس طرف اس کا گذر ہووے تو اودھر کو نہ جائے
چھیڑے گالی دے اشارت کرے چشمک مارے
عشوہ و غمزہ و انداز بھلادے سارے

زندگانی ہو تجھے ہاتھ سے اس کے دشوار
کوئی دن تو بھی پھرے جان سے اپنی بیزار
پہنچیں ہر آن میں اس سے تجھے سو سو آزار
طنز و تعریض و کنایہ کی رہے اک بوچھار
جاکے ٹک سامنے اس کے تو بہت تر آوے
عرق شرم میں ڈوبا ہوا سب گھر آوے

دل واسوختہ کو اپنے لیے جاتے ہیں
غصے سے خون جگر اپنا پیے جاتے ہیں
اپنی جا غیروں کو ناچار دیے جاتے ہیں
اب کے یوں جاتے نہیں عہد کیے جاتے ہیں
آوے گا تو بھی منانے تو نہ آویں گے ہم
جان سے جاویں گے پیماں سے نہ جاویں گے ہم

بازگشت اب کی کسو طرح نہیں ہے منظور
گوکہ درپیش ہمیں آوے رہ دور از دور
جانا ٹھانا تو پھر آنے کا ہے یھاں کیا مذکور
جی سے اپنے بھی گذر جایئے پر تا مقدور
منھ ادھر کریے نہ جس جا سے بنے اٹھ جانا
قدر کھو دیوے ہے ہر بار کا جانا آنا

میرؔ اعراض بھی لوگوں نے کیا ہے آگے
دل کے واسوز سے لوہو بھی پیا ہے آگے
خلق عالم سے کنارہ بھی کیا ہے آگے
عزت و وقر بھی برباد دیا ہے آگے
پر کنھوں نے نہیں اس ڈھب سے زباں بازی کی
یہ بھی ظالم ہے کوئی طرز سخن سازی کی


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.