یاد میں اپنے یار جانی کی
Appearance
یاد میں اپنے یار جانی کی
ہم نے مر مر کے زندگانی کی
دوستوں کو عدو کیا ہم نے
کر کے تعریف یار جانی کی
کیوں نہ رسوا کرے زمانے میں
یہ کہانی غم نہانی کی
روح ہوے گی حشر میں صاحب
اک نشانی سرائے فانی کی
خاکساری سے بڑھ گیا انساں
ارض پر سیر آسمانی کی
زرد صورت پہ ہجر میں نہ ہنسو
شرح ہے رنگ زعفرانی کی
آج کل لکھنؤ میں اے اخترؔ
دھوم ہے تیری خوش بیانی کی
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |