یارب آباد ہوویں گھر سب کے
یارب آباد ہوویں گھر سب کے
پھریں خط لے کے نامہ بر سب کے
کس کی مژگان ہیں کہ سینوں میں
یک بیک چھن گئے جگر سب کے
شب کی شب گل چمن کے ہیں مہمان
برگ جھڑ جائیں گے سحر سب کے
ایک عاشق پہ التفات نہ کر
حال پر رکھ میاں نظر سب کے
دیجو پیغام ہی مرا قاصد
لے چلا ہے تو خط اگر سب کے
جتنے ہیں گرد و پیش ہمسائے
گھر ڈبوئے گی چشم تر سب کے
ہم رہے پیچھے وائے گرم رواں
پہنچے منزل پہ پیشتر سب کے
میرے سوز جنوں کی دہشت سے
بند رہتے ہیں دن کو گھر سب کے
دل ہی اپنا ہے چینیٔ مو دار
حصے آئے نہ وہ کمر سب کے
ہاتھ اٹھتے تھے پیٹنے کے لیے
تیرے کشتے کی لاش پر سب کے
گر یہی ہے رسائی صیاد
ایک دن باندھے گا یہ پر سب کے
کیا دکھاوے صفائی طبع مری
جس جگہ ہوں خذف گہر سب کے
دوستی کر دلا نہ ان سے کہ ہیں
دشمن جاں یہ سیم بر سب کے
تھے جو سلطان بحر و بر آخر
گئے برباد تاج زر سب کے
وائے دنیا کہ رلتے پھرتے ہیں
خاک میں کاسہ ہائے سر سب کے
مصحفیؔ یہ جو ہیں امیر و فقیر
دل میں ہے موت کا خطر سب کے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |