Jump to content

یار آیا ہے احوال دل زار دکھاؤ

From Wikisource
یار آیا ہے احوال دل زار دکھاؤ
by رند لکھنوی
316655یار آیا ہے احوال دل زار دکھاؤرند لکھنوی

یار آیا ہے احوال دل زار دکھاؤ
عیسیٰ کو ذرا حالت بیمار دکھاؤ

آ جاؤ بس اب راہ نہ اے یار دکھاؤ
مشتاق ہوں مشتاق ہوں دیدار دکھاؤ

عالم ہے سو ہے ہجر میں یاں جوش جنوں کا
صحرا مجھے دکھلاؤ کہ گل زار دکھاؤ

فرداے قیامت کا نہ اقرار کرو جاں
لو حشر سہی آج ہی دیدار دکھاؤ

عاشق ہیں بہت ایک تو چن کر کوئی مجھ سا
پشتے کی طرح پشت بہ دیوار دکھاؤ

عالم نظر آ جائے بہار اور خزاں کا
ہم زرد ہوں تم پھول سے رخسار دکھاؤ

تلوار لگاؤ مجھے گولی سے نہ مارو
تل ڈھانک لو اور ابروئے خم دار دکھاؤ

ہر دم متقاضی ہے یہی حسرت دیدار
پھر ایک نظر جلوۂ دل دار دکھاؤ

فرماتے ہو عاشق ہیں مرے تجھ سے ہزاروں
اے جان زیادہ نہیں دو چار دکھاؤ

عشق ابرو و مژگاں کا بتو ساتھ ہے دم کے
خنجر مجھے دکھلاؤ کہ تلوار دکھاؤ

میں قبر سے بھی رندؔ یہی کہتا اٹھوں گا
مشتاق ہوں مشتاق ہوں دیدار دکھاؤ


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.