یار کب دل کی جراحت پہ نظر کرتا ہے
Appearance
یار کب دل کی جراحت پہ نظر کرتا ہے
کون اس کوچے میں جز تیرے گزر کرتا ہے
اب تو کر لے نگہ لطف کہ ہو توشۂ راہ
کہ کوئی دم میں یہ بیمار سفر کرتا ہے
اپنی حیرانی کو ہم عرض کریں کس منہ سے
کب وہ آئینے پہ مغرور نظر کرتا ہے
عمر فریاد میں برباد گئی کچھ نہ ہوا
نالہ مشہور غلط ہے کہ اثر کرتا ہے
یار کی بات ہمیں کون سناتا ہے یقیںؔ
کون کب گل کی دوانوں کو خبر کرتا ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |