یار کو بے حجاب دیکھا ہوں
Appearance
یار کو بے حجاب دیکھا ہوں
میں سمجھتا ہوں خواب دیکھا ہوں
یہ عجب ہے کہ دن کوں تاریکی
رات کوں آفتاب دیکھا ہوں
نسخۂ حسن میں ترے قد کوں
مصرع انتخاب دیکھا ہوں
کس ستی اب امید لطف رکھوں
تجھ نگہ سیں عتاب دیکھا ہوں
اب ہوا سب سیں فارغ التحصیل
بے خودی کی کتاب دیکھا ہوں
لشکر عشق جب سیں آیا ہے
ملک دل کوں خراب دیکھا ہوں
مجلس چشم مست ساقی میں
دور جام شراب دیکھا ہوں
اے سراجؔ آتش محبت میں
دل کوں اپنے کباب دیکھا ہوں
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |