یار کو ہم نے برملا دیکھا
یار کو ہم نے برملا دیکھا
آشکارا کہیں چھپا دیکھا
لن ترانی کہا کھلا دیکھا
کنتُ کنرًا کہا چھپا دیکھا
کہیں خالق ہوا کہیں مخلوق
کہیں بندہ کہیں خدا دیکھا
باغ میں ہے وہ ہر جگہ موجود
کہیں غنچہ کہیں صبا دیکھا
کہیں عابد ہے وہ کہیں معبود
گہہ معابد میں جبہہ سا دیکھا
کہیں لیلیٰ بنا کہیں مجنوں
کہیں محبوب خوش ادا دیکھا
کہیں عاشق بنا کہیں معشوق
کہیں ان دونوں سے جلا دیکھا
کہیں خورشید میں منور ہے
کہیں مہتاب میں ضیا دیکھا
نظر آیا وہ مے کدے میں مست
کہیں مسجد میں پارسا دیکھا
کہیں نا آشنا ہے عاشق سے
کہیں عالم سے آشنا دیکھا
کہیں بنتا ہے عاشق بیتاب
کہیں خوباں کا پیشوا دیکھا
کہیں عاشق صفت دیا ہے دل
کہیں معشوق دل ربا دیکھا
کہیں بلبل بنا کہیں قمری
گہہ گل و سرو خوش نما دیکھا
گہہ منزہ ہے یار وحدت میں
گاہ کثرت میں جا بجا دیکھا
گاہ ممکن ہے گاہ ہے لا شے
یار کا ماجرا نیا دیکھا
جلوہ اس کا ہے ہر طرف روشن
اپنے جلوے پہ خود فدا دیکھا
عقل حیران ہو گئی بہرامؔ
یہ تماشا جو یار کا دیکھا
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |