یار کے بن بہار کیا کیجے
Appearance
یار کے بن بہار کیا کیجے
گل نہ ہووے تو خار کیا کیجے
کام میرا تو ہو چلا آخر
اے مرے کردگار کیا کیجے
کوئی وعدہ وفا نہیں کرتا
وہ تغافل شعار کیا کیجے
مثل آئینہ خود نما میرا
سب سے ہو ہے دو چار کیا کیجے
سوز دل میرا مجھ کو دے ہے جلا
آہ مثل چنار کیا کیجے
عشق نے کر دیا مجھے مجبور
اب نہیں اختیار کیا کیجے
مثل زلف بتاں فسانۂ دل
ہے طویل اختصار کیا کیجے
گزری جو دل پہ میرے ہو گزری
اس کا اب اشتہار کیا کیجے
دل تو گلچیں ہے تیرے گلشن کا
لے کے گل رو ہزار کیا کیجے
وہ تو آتا نہیں ہے میرے پاس
اے دل بے قرار کیا کیجے
بے طرح ہے مجھے یہ مشکل عشق
صاحب ذوالفقار کیا کیجے
اے جہاں دارؔ سب جہاں ڈھونڈا
نئیں کوئی غم گسار کیا کیجے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |