Jump to content

یاں تو کچھ اپنی خوشی سے نہیں ہم آئے ہوئے

From Wikisource
یاں تو کچھ اپنی خوشی سے نہیں ہم آئے ہوئے
by نظیر اکبر آبادی
316014یاں تو کچھ اپنی خوشی سے نہیں ہم آئے ہوئےنظیر اکبر آبادی

یاں تو کچھ اپنی خوشی سے نہیں ہم آئے ہوئے
اک زبردست کے ہیں کھینچ کے بلوائے ہوئے

آتے ہی روئے تو آگے کو نہ روویں کیوں کر
ہم تو ہیں روز تولد ہی کے دکھ پائے ہوئے

دیکھ کر غیر کے ساتھ اس کو کہا یوں ہم نے
ہو تو تم چاند پر اس وقت ہو گہنائے ہوئے

کل جو گلشن میں گئے ہم تو عجب شکل سے آہ
ہجر کے مارے ہوئے جی سے بتنگ آئے ہوئے

گل جو تازے تھے کھلے کہتے تھے شبنم سے یہ بات
دیکھ کر ان کو جو وہ پھول تھے کمہلائے ہوئے

آج ہیں شاخ پہ جس طور سے پژمردہ نظیرؔ
کل اسی طرح سے ہم ہوویں گے مرجھائے ہوئے


This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago.