یا تھی ہوس وصال دن رات
Appearance
یا تھی ہوس وصال دن رات
یا رہنے لگا ملال دن رات
بے چین رکھے ہے میرے دل کو
کافر یہ ترا خیال دن رات
رہتا ہے مری زباں پہ تجھ بن
افسانۂ زلف و خال دن رات
دیکھوں ہوں بہ نقطۂ تصور
ملنے کی ترے ہی فال دن رات
آنکھوں میں پھرے ہے جوں مہ عید
ابرو کا ترے ہلال دن رات
وہ صید ہوں میں رہے ہے جس کے
اندیشے کا سر پہ جال دن رات
آنکھوں کے تلے مری پھرے ہے
اب تک وہی بول چال دن رات
جس سبزۂ مرغزار میں تھا
رقصندہ مرا غزال دن رات
جولانیٔ درد و غم سے اب یاں
وہ سبزہ ہے پائمال دن رات
گر تو ہی نہیں تو کیوں جیوں میں
ہے زیست مجھے وبال دن رات
فرقت میں تری ہے مصحفیؔ کو
لکھنا یہی حسب حال دن رات
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |