Jump to content

یوں بھی ہونے کا پتا دیتے ہیں

From Wikisource
یوں بھی ہونے کا پتا دیتے ہیں
by باقی صدیقی
330849یوں بھی ہونے کا پتا دیتے ہیںباقی صدیقی

یوں بھی ہونے کا پتا دیتے ہیں
اپنی زنجیر ہلا دیتے ہیں

پہلے ہر بات پہ ہم سوچتے تھے
اب فقط ہاتھ اٹھا دیتے ہیں

قافلہ آج کہاں ٹھہرے گا
کیا خبر آبلہ پا دیتے ہیں

بعض اوقات ہوا کے جھونکے
لو چراغوں کی بڑھا دیتے ہیں

دل میں جب بات نہیں رہ سکتی
کسی پتھر کو سنا دیتے ہیں

ایک دیوار اٹھانے کے لیے
ایک دیوار گرا دیتے ہیں

سوچتے ہیں سر ساحل باقیؔ
یہ سمندر ہمیں کیا دیتے ہیں


This work is now in the public domain in Pakistan because it originates from Pakistan and its term of copyright has expired. According to Pakistani copyright laws, all photographs enter the public domain fifty years after they were published, and all non-photographic works enter the public domain fifty years after the death of the creator.