یوں تو دل ہر کدام رکھتا ہے
Appearance
یوں تو دل ہر کدام رکھتا ہے
اہل دل ہونا کام رکھتا ہے
کب وہ طمع سلام رکھتا ہے
مجھ سا لاکھوں غلام رکھتا ہے
عشرت دو جہاں ہے اس کے ساتھ
جو صراحی و جام رکھتا ہے
ہے وہی خاص بزم دنیا میں
جو مدارائے عام رکھتا ہے
دین و دنیا کا جو نہیں پابند
وہ فراغت تمام رکھتا ہے
بت پرستوں کو کوئی کہے ہے زبوں
کوئی مسلماں کو نام رکھتا ہے
ہر کوئی اپنی فہم ناقص میں
پختہ سودائے خام رکھتا ہے
جو کسو کو برا کہے نہ حضورؔ
وہی فہم مند نام رکھتا ہے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |