یوں غیر کچھ کہیں تو بلا کو بری لگے
Appearance
یوں غیر کچھ کہیں تو بلا کو بری لگے
تو کچھ نہ کہہ کہ ہم غربا کو بری لگے
تنگی کرے نہ حوصلہ اپنا کہیں بس اب
اتنی جفا نہ کر کہ وفا کو بری لگے
تجھ بن یہ زیست اپنی ہمیں یوں ہے جس طرح
قید حیات اہل فنا کو بری لگے
ہوں خاک تیرے کوچہ کی ہم اور اپنی گرد
تیری گلی سے آہ صبا کو بری لگے
ہم تو سہیں گے وہ بھی پہ لازم نہیں تجھے
اس ناز کی جفا جو ادا کو بری لگے
ہے بے حیائی حد سے جو گرمی زیادہ ہو
شوخی بہت تو مرد و نسا کو بری لگے
چوں آئینہ دل اپنا کدورت سے صاف رکھ
گرد ملال اہل صفا کو بری لگے
ہر دم جواب صاف مروت سے ہے بعید
وہ بات تو نہ کر کہ حیا کو بری لگے
اس بت کی بندگی سے نہ آزاد ہو حسنؔ
یہ بات بھی کہیں نہ خدا کو بری لگے
This work was published before January 1, 1929, and is in the public domain worldwide because the author died at least 100 years ago. |