یوں نہ مایوس ہو اے شورش ناکام ابھی
Appearance
یوں نہ مایوس ہو اے شورش ناکام ابھی
میری رگ رگ میں ہے اک آتش بے نام ابھی
عاشقی کیا ہے ہر اک شے سے تہی ہو جانا
اس سے ملنے کی ہے دل میں ہوس خام ابھی
انتہا کیف کی افتادگی و پستی ہے
مجھ سے کہتا تھا یہی درد تہ جام ابھی
علم و حکمت کی تمنا ہے نہ کونین کا غم
میرے شیشے میں ہے باقی مئے گلفام ابھی
سب مزے کر دیئے خورشید قیامت نے خراب
میری آنکھوں میں تھا اک روئے دلارام ابھی
بلبل زار سے گو صحن چمن چھوٹ گیا
اس کے سینے میں ہے اک شعلۂ گلفام ابھی
This work is now in the public domain because it originates from India and its term of copyright has expired. According to The Indian Copyright Act, 1957, all documents enter the public domain after sixty years counted from the beginning of the following calendar year (ie. as of 2024, prior to 1 January 1964) after the death of the author. |